المجیب
(اردو زبان و ادب میں خانقاہ مجیبیہ کی خدمات نمبر)
دینی اور علمی مجلہ المجیب اپنی سہ ماہی اشاعت مکمل کرچکا ہے۔اس موقع پر ادارہ نے ایک ضخیم نمبر شائع کیا ہے جس میں رسالہ المجیب کے تابناک سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انتہائی جامع اور مفید مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔اس نمبر میں تاثرات کا ایک کالم بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ یہاں پیش ہے خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ،سملہ ضلع اورنگ آباد کے سجادہ نشیں شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی سملوی کے تاثرات:(ادارہ)
دینی ، علمی و ادبی مجلہ ’’المجیب‘‘ اپنی سہ ماہی اشاعت کی ایک دہائی مکمل کررہا ہے ۔اردو رسائل کے لئے ایک مشکل دور میں تسلسل سے کسی ایسے مجلے کا شائع ہونا جس میں دنیا کی رنگارنگی سے درکنار اخروی نجات اور سنجیدہ علمی و دینی مضامین پر زیادہ زور ہویقیناً عزم محکم اور سعی پیہم کی زندہ مثال ہے۔ حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مدظلہ العالی،زیب سجادہ مجیبی ،خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی زیر نگرانی اس علمی و ادبی مجلہ کی یہ باوقار اشاعت ان کے لئے جو اس دور پر فتن میں سنجیدہ علمی ،دینی ،معلوماتی اور ادبی تحریروں کے پڑھنے کے خواہاں ہیں ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ’’المجیب ‘ ‘ کو اسی آب و تاب سے شائع ہوتا دیکھ رہا ہوں۔والد محترم حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ ،زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ ،ضلع اورنگ آبادکو اس رسالہ سے ذہنی، قلبی و روحانی لگاؤ تھا۔ان کے ذاتی کتب خانے میں ’’المعارف ‘‘کے شمارے بھی موجود تھے۔وہ بڑی بے صبری سے’’ المجیب‘‘ کے ہر شمارے کا انتظار کرتے اور جیسے ہی یہ رسالہ ان کے ہاتھوں میں آتا ایک ہی نشست میں اس کو مکمل پڑھنے کی سعی کرتے۔خانقاہ مجیبیہ کے بزرگوں اور اہل قلم حضرات سے ان کا قلبی تعلق ’’المجیب ‘‘سے ان کے عشق کا ایک بنیادی عنصر تھا۔ ۷۰ کی دہائی میں اس رسالے کا عروج قابل دید تھا۔خانقاہ مجیبیہ اور ملک کے نامور علما و مشائخ کی تحریریں اس مجلے کی زینت بن رہی تھیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب ۱۹۸۰ میں ماہنامہ’’ المجیب ‘‘کی اشاعت کو وقتی طور پر روکنا پڑا۔ظاہر ہے یہ وقفہ نہ صرف خانقاہ کے اکابرین کے لئے بلکہ ادب کہ ان تشنہ لبوں کے لئے بھی انتہائی سخت تھا جواس رسالہ سے اپنی دینی ،فکری، ادبی و ذہنی پیاس بجھاتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے آج سے دس سال قبل اس رسالہ کا ایک بار پھر اسی شان سے اجرا ہوا اور الحمد اللہ آج ’’المجیب ‘‘ اپنی از سر نو اشاعت کے خوبصورت دس سال مکمل کررہا ہے۔اپنی اشاعت کے دوسرے زرّیں دور میں المجیب کو سہ ماہی کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وقت کی رفتار اتنی تیزہے کہ اس رسالہ کے ماہانہ سے سہ ماہی ہونے کا احساس بہت زیادہ نہیں رہا۔اس مجلے میں شامل ہونے والے علمی و تحقیقی مضامین اتنے ٹھوس اور معیاری ہیں کہ دوسرے رسائل کی طرح ایک ماہ میں اس کی مشمولات کو ہضم کر پانا آسان نہیں۔انتہائی جانفشانی سے تحریر کردہ یہ مضامین دیرپا اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ظاہر ہے اتنے محدود وسائل میں اس معیار کے رسالے کی ماہانہ اشاعت ایک مشکل امر ہے خاص کر ایسی صورت میں جب سنجیدہ اور ایک مخصوص مزاج کی تحریروں کے لکھنے اور پڑھنے والے کم ہوں۔المجیب کی خوش نصیبی ہے کہ اسے مضامین و مقالات کے لئے دوسروں کا منہ تکنے کی ضرورت نہیں۔ خود اس کے خزینے میں ایسے ایسے گوہر آبدار موجود ہیں جو دنیائے علم و تحقیق کی پیاس بجھانے اور ان کی راہ نمائی و قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔المجیب کی مسلسل کامیاب اشاعت کا راز اسی میں پنہاں ہے۔مالی دشواریاں المجیب کے لئے سد راہ بنیں لیکن اس کے سرپرستوں نے اپنی مخلصانہ کاوشوں اورجہد مسلسل سے اس پر قابو پایا۔آج اردو کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں لیکن خانقاہ مجیبیہ ،پھلواری شریف نے اردو زبان کی جو خاموش خدمت کی ہے وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔دینی ،علمی و ادبی رسالوں میں المعارف سے المجیب تک کا سفر نہ صرف تشنگان علم بلکہ اردو زبان و ادب کی ایسی خاموش خدمت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا نا انصافی اور نا شکری ہوگی۔
آج ہم صرف اس علمی و دینی مجلہ کے دس سال مکمل کرلینے کا جشن نہیں منا رہے بلکہ آج یہ امر بھی قابل تعریف ہے کہ خانقاہ مجیبیہ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اردو زبان وادب کی جو خدمت کی ہے وہ بے مثال ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اردو شعر و ادب کی ترویج و اشاعت میں خانقاہوں کا عظیم حصّہ رہا ہے۔ ان خانقاہوں نے اردو کو اس کی اس بنیادی تہذیبی شکل میں زندہ رکھا جو فارسی سے قریب ترتھی۔ آج بھی خانقاہ مجیبیہ میں ایسے اہل علم موجود ہیں جو نہ صرف فارسی پر بھرپور دسترس رکھتے ہیں بلکہ اس زبان میں شاعری کرنے پر بھی قادر ہیں۔زیب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ محمدآیت اللہ قادری ،مولانا الحاج سیدشاہ ہلال احمد قادری، مولانا شاہ بدر احمد مجیبی،مدیر المجیب ڈاکٹر شاہ فتح اللہ قادری اپنے اسلاف کے نقش قدم پر تشنگان علم اور اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ خانقاہ مجیبیہ میں اردو زبان و ادب کی یہ خدمات صرف ان رسائل تک محدود نہیں بلکہ یہاں تحقیقی ، علمی، دینی و ادبی کاموں کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ فیاض المسلمین امیرالشریعۃ مولانا سید شاہ محمد بدر الدین قادری پھلواروی قدس سرہ کی تالیف مبارکہ’’ احوال مولائے کائنات‘‘مع تحشیہ و تخریج ازسید شاہ آیت اللہ قادری ،اس دور میں شائع ہونے والی ایک ایسی علمی و ادبی کتاب ہے جس میں اس موضوع پر انتہائی عرق ریزی سے کام کیا گیا ہے اور اس کا بھرپور حق ادا کیا گیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے لحاظ سے بھی یہ ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔زبان کی سلاست اور تحریر کی روانی قابل دید ہے۔مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری کی تالیف ’’سیرت پیر مجیب قدس سرہ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ ، پھلواری شریف ان نادر و نایاب تحریروں کو شائع کرکے امت مسلمہ اور اردو زبان و ادب کی ایک بیش بہا خدمت انجام دے رہا ہے۔مختصر تاثرات میں ان کا احاطہ ممکن نہیں ۔ خانقاہ مجیبیہ میں اردو زبان و ادب کی خدمات کا یہ ذکر سورج کو چراغ دکھانے کہ مترادف ہے۔ خانقاہ مجیبیہ کی علمی و ادبی خدمات کو کسی سند کی ضرورت نہیں مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔یہ ان بزرگوں کا فیض خاص ہے کہ ان کے آستانے سے آج بھی یہ خوشبو چمن میں پھیل رہی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت پھیلتی رہے گی اور تشنگان علم دین اور شیدایان زبان و بیان اسی طرح فیضیاب ہوتے رہیں گے۔
سبحان اللہ
ReplyDelete