دنیا بھر میں پھولوں کی بہت ساری
اقسام پائی جاتی ہیں۔ہماری نئی نسل کو اردو میں اس بابت تحریری طور پر کم مواد
دستیاب ہیں۔ لہٰذا آئینہ کے قارئین کے لیےمختلف پھولوں سے مختصر تعارف کرانے کا
ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جو امید
ہے آپ سب کو پسند آئے گا۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور پر پیش ہے گلاب کا تعارف۔
اسراء عثمانی
گلاب
گلاب دنیا بھرمیں سب سے پسندیدہ پھول ہے۔ گلاب ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی خوشبو گلاب جیسی تھی۔
گلاب کی ۱۰۰ سے بھی زائد قسمیں ہیں۔ جن میں زیادہ تر قسمیں
ایشیا میں پائی جاتی ہیں جبکہ
دیگر کا تعلق یوروپ شمالی امریکہ اور افریقہ سے ہے۔ گلاب مختلف موسموں میں لگایا
جاسکتاہے۔ گلاب کا سائز اس کی نسل پر منحصر کرتا ہے۔گلگب کی کئی نسلیں ایسی ہیں جس
میں اس کی کونپلیں ۳۲ انچ اور اس کا قد لمبائی میں ۲۳ فٹ تک ہو سکتا ہے۔گلاب کا
رنگ اس کی species پر
منحصر کرتا ہے۔گلاب مختلف رنگوں کا پایا جاتا ہے جس میں سفید، پیلا، گلابی ،نارنگی
اور لال شامل ہیں۔ کالا گلاب کمیاب ہے مگر کافی مشہور ہے۔ کالے گلاب کی ایک قسم
جمشید پور کےجوبلی پارک میں پائی جاتی ہے۔
اس کے مختلف رنگ اپنی الگ الگ معنویت رکھتے ہیں۔ لال گلاب محبت کی علامت سمجھا
جاتا ہے۔ پیلا گلاب دوستی کی نشانی ہے۔ نارنگی جوش و ولولہ کی اور سفید پاکیزگی
کی علامت سمجھا جاتا ہے۔گلابی رنگ خوشیوں کی علامت ہے۔
اس کے بہت سارے طبّی فوائد بھی ہیں۔گلاب کی پنکھڑیوں سے گل
قند بنایا جاتا ہے جو قلب اور دماغ کے لیے انتہائی سکون بخش ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پیٹ کے درد میں بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔گلاب
کی پتیوں کو سکھاکر اس کی چائے بھی بنائی جاتی ہے۔ گلاب کی پتیوں کا عرق بھی نکالا
جاتا ہے جو امراض چشم میں بہت مفید ہے۔ یہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے اور اس کی
لالی کو کم کرتا ہے۔ عرق گلاب کھانوں میں خوشبو کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مذہبی
تقریبات میں اس کے پانی کا چھڑکاؤ بھی
کیا جاتا ہے۔
گلاب کی پنکھڑیاں ایک دوسرے پر چڑھی ہوتی ہیں۔ اس کی شاخوں میں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔اردو شاعری میں گلاب کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور شعرا نے اس کا مختلف موقعوں پر استعمال کیا ہے اور اس کی تشبیہیں دی ہیں۔ میر کا ایک مشہور شعر ہے جس میں اس نے اپنے محبوب کے ہونٹوں کی مثال گلاب کی پنکھڑی سے دی ہے
گلاب کی پنکھڑیاں ایک دوسرے پر چڑھی ہوتی ہیں۔ اس کی شاخوں میں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔اردو شاعری میں گلاب کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور شعرا نے اس کا مختلف موقعوں پر استعمال کیا ہے اور اس کی تشبیہیں دی ہیں۔ میر کا ایک مشہور شعر ہے جس میں اس نے اپنے محبوب کے ہونٹوں کی مثال گلاب کی پنکھڑی سے دی ہے
نازکی اس کے لب کی
کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی
ہے
گلاب سے عطر بھی کشید کیا جاتا ہے۔یہ عطریات کی انڈسٹری کا
ایک اہم جز ہے۔عطر کشید کرنے کے لیے کثیر تعداد میں گلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک
گرام تیل کے لیے تقریباً دو ہزار گلاب کے پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
گلاب ایک بہت ہی قدیم پودا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کولاریڈو/امریکہ میں گلاب کی
سب سے قدیم نسل دریافت ہوئی ہے جو ایک تخمینہ کے مطابق ۳۵ ملین سال پرانی ہے۔
Nice
ReplyDelete