آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday, 8 March 2019

عالمی یوم خواتین پر خصوصی مضمون

اسلامی معاشرے میں خواتین کا مقام

( یہ مضمون 8 مارچ 2014 کو شائع ہوا تھا مضمون کی
 افادیت دیکھتے ہوئے اسے از سر نو پیش کیا جارہا ہے۔)

آج یوم خواتین ہے۔دنیا بھر میں خواتین اپنی شناخت کی بقا کے لئے منصوبے بنا رہی ہیں۔معاشرے میں اپنی حیثیت کو تسلیم کرانے کے لئے جد وجہد کے راستے تلاش کر رہی ہیں اور اس اندھی دوڑ میں اسلام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حالانکہ وہ سب اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ خواتین کے حقوق کو تسلیم کرنے اور انہیں ایک انقلابی حیثیت دینے میں اسلام سب مذاہب سے آگے ہے۔

کیا اسلامی معاشرے میں خواتین  کے ملازمت اختیار کرنے کو آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے؟ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی لڑکیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے  کہ وہ شادی کے بعد اپنے گھر کی چہاردیواری تک محدود رہیں۔ لڑ کیوں کو ملازمت کے’’ قبیح فعل‘‘ سے بعض رکھنے کے لئے اسلامی احکامات کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔

بے شک اسلام نے شرم و حیا کو عورتوں کا زیور بتایا ہےاور اسے پردے میں رہنے کی تلقین کی ہے،لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام نے شرعی حدود میں خواتین کے کام کرنے کو کبھی غلط نہیں سمجھا۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام نے عورتوں کو دیگر مذاہب کے مقابلے کہیں زیادہ آزادی دی ہےاور پوری طرح ان کے حقوق کی حفاظت کی ہےخواتین کو اپنی فلاح و بہبود کے لئے کسی دوسرے کی جانب دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔اسلام نے ان کو وہ تمام آزادی فراہم کی ہے جن سے وہ جائز طریقے پر اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہیں۔ہندوستانی معاشرے میں عورتوں سے جو ناروا سلوک کیا جاتا ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ اس تہذیب کی دین ہے جس کی بنیاد مردوں کے آمرانہ مزاج پر رکھی گئی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ آحر وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے صنف نازک کو اپنی تہذیب و تمدن سے بغاوت پر آمادہ کیا۔ وہ کیا وجوہات ہیں جنہیں انہوں نے ان طاقتوں کا آلہ کار بنادیا جو ہمارے تہذیب و تمدن اور اسلامی شناخت کو ملیا میٹ کردینا چاہتی ہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر اپنا محاسبہ نہ کیا اور اس کے سد باب  کی کوشش نہ کی گئی تو حالات مزید نازک ہوتے چلے جائیں گے۔

آج ہندوستانی معاشرے میں مسلم خواتین اپنی ہم وطنوں کی طرح ملازمتیں اختیار کر رہی ہیں۔انہیں اس معاملہ میں یکلحت یہ کہ کر روکا نہیں جاسکتا کہ اسلام انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔اسلام نے عورتوں و مردوں سب کو مساویانہ حقوق دیے ہیں ساتھ ہی اس نے سبھی معاملے میں ایک حد مقرر کی ہے، اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ مر د ہو یا عورت اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔اسلام دین فطرت ہے اور اس نے تمام فطری تقاضوں کوملحوظ خاطر رکھا ہے۔اب اس صورت میں اپنی جانب سے سخت رویہ اپنایا جائے گاتو ظاہر ہے اس کے رد عمل میں وہ نتائج ظہور پذیر ہوں گے جو معاشرے کے لئے خطر ناک ہیں لیکن انسانی ضرورتوں اور فطری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک درمیانی راستہ اختیار کیا جائے تو تمام مسئلوں سے بہ آسانی نمٹا جا سکتا ہے۔

بے جا رکاوٹوں اور حد سے زیادہ پابندیوں کی وجہ سے عورتوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مرد اپنی قوامیت ثابت کرنے کے لئے ان کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اسلام نے انہیں جو اختیارات دیے ہیں انہیں اس سے محروم رکھا جاتا ہے اور اسلام  کے نام پر ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ممعاشرے کےعملی شواہد بھی ان کے اس الزام کی تائید کرتے ہیں۔ہندوستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ پردے اور گھریلو ذمہ داریوں کے کے نام پر جو ناروا سلوک عام رکھا گیا اس کی مثال مہیں ملتی۔بے بسی اور کم مائیگی کے احساس نے ان کے اندر  بغاوت پیدا کردی ہے اور اپنی جائز ضرورتوں اور مطالبوں کے حصول کے لئے انہوں نے غلط راستہ اختیار کرلیا ہے۔معاشرے میں عورتوں میں جو یہ آزادی پائی جاتی ہے اس کے لئے بہت حد تک مرد ذمہ دار ہیں۔اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے میں بیداری پیدا کی جاتی اور عورتوں کے حقوق سلب نہ کئے جاتے تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔

اسلام مرد و عورت کی جداگانہ اور منفرد حیثیت کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن اس کے نزدیک ان دونوں کے درمیان کسی مادی کشاکش یا مفاداتی تصادم کا کوئی  وجود نہیں۔اسلام میں مرد اور عورت دونوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں بلکہ بعض معاملوں میں عورتوں کو مردوں پر سبقت حاصل ہے۔
                        

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری