حضرت شاہ کمال علی کمال دیوروی کے عرس کے موقع پر آئینہ کی خصوصی پیشکش
آپ کا عرس 7 جمادی الثانی کو خانقاہ برهانیہ کمالیہ دیورہ شریف میں آپ کے زیب سجادہ حضرت شاہ حافظ انور علی عثمانی فردوسی دیوروی مدظلہ العالی دامت برکاته کی سرپرستی میں منعقد ہوتا ہے۔
حضرت شاہ کمال علی کمال دیورویؒ شخصیت اور ان کی مثنوی
-شاہ طیب عثمانی ندوی
ہر عظیم ادب کا سوتا کسی نہ کسی عظیم تصور ہی سے پھوٹتا ہے اور حیات و کائنات میں سب سے عظیم تصورخدا کا تصور ہے،اس لئے تصور خدا کے بغیر اعلیٰ شعر و ادب کی تخلیق ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ اردو شاعری ابتدا سے خدا کے عظیم تصور سے مالا مال ہے۔ ولی دکنی سے خواجہ میر درد، غالب اور اقبال تک ہر دور میں افق شاعری کے آسمان پر ایسے شعرا ہمیں ضرور نظر آئیں گے جن کے یہاں خدا کا تصور کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملے گا،پھر ان میں اکثر شعراء نے خدا کی حمد،اس کی بڑائی و کبریائی کا اظہار اور اس کے سامنے اظہار عجز و بندگی کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے دلوں سے بہتے ہوئے اشکوں کے موتی لٹائے ہیں۔اسی طرح اردو شاعری میں ’’حمد و مناجات‘‘ کے ایسے حسین شہ پارے ملتے ہیں جو شکستہ اور بیتاب دلوں کے عکاس،روح پرور،سکوں بخش اور تاثیر سے پرُ ہیں
حمد و مناجات اور نعت کی شاعرانہ عظمت اور فنکارانہ خصوصیت کے بارے میں پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم کا یہ گراں قدر بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے:
’’ بڑی شاعری میں منجملہ اور باتوں کے دو نہایت ضروری ہیں،ایک تو اس کا رشتہ کسی اعلیٰ اور عظیم حقیقت سے،دوسرے اس کا ربط کسی اعلیٰ اور عظیم شخص اور شخصیت سے۔اقبالؔ خدا کو سب سے بڑی حقیقت تصور کرتے ہیں اور رسالت مآب ﷺ کو سب سے بڑا شخص اور شخصیت۔‘‘
(جدید غزل)
اقبال کی شاعری کی عظمت یہی ہے کہ ان کے یہاں خدا کا عظیم تصور اور رسالت مآب ﷺ کی عظیم شخصیت ملتی ہے،اس طرح اردو شاعری میں’’حمد و نعت کا موضوع شعری و فنی لحاظ سے اعلیٰ معیار و اعتبار رکھتا ہے اور ان کا شمار ادب عالیہ میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو کے تقریباً تمام ہی بڑے فنکاروں کے یہاں خدا پر ایمان و یقین کی بجلیاں اور آنحضرت ﷺ کی روشن زندگیوں کی تجلیاں نظر آتی ہیں ،ان کے یہاں حمد و مناجات کا موضوع گہرے دلی جذبات،شکستہ اور مضطرب دل کا ترجمان،امیدوں اور آرزؤں کا آئینہ ہوتا ہے۔
اس وقت میرے پیش نظر بہار کے ایک گمنام مگر باکمال شاعر حضرت شاہ کمال علی کمال دیورویؒ کی مثنوی ہے۔بہار کی سرزمین اپنے علمی و دینی کارناموں اور تصوف و احسان کے روحانی عظمتوں کی وجہ سے ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ اسی ریاست کے ضلع گیا میں شہر گیا سے چند میل مغرب و جنوب کے گوشہ میں’’حضرت دیورہ‘‘ نام کی ایک بستی ہے ،جہاں کے حضرت شاہ کمال علی کمالؒ اپنے وقت کے ایک با کمال اور اہل دل بزرگ صوفی شاعر گذرے ہیں۔آپ کی پیدائش 1130ھ مطابق1720ء اور تاریخ وفات 7جمادی الثانی 1215 ھ 1803ء ہے۔ان کی اردو غزلوں کا مجموعہ اور ایک طویل مثنوی اردو شاعری کا بیش بہا نمونہ ہے۔ اٹھارہویں صدی کے نصف کا یہ عہدجو حضرت شاہ کمال علی ؒ کا عہد ہے اس پورے عہد کواگر اہل دل صوفیاء اور اہل علم ادباء و شعراء کا عہد کہا جائے تو شایدغلط نہ ہوگا۔بہار میں حضرت غلام نقشبند سجاد ؒ 1116 تا1173ھ، حضرت نورالحق تپاں پھلوارویؒ 1156تا1233 ھ،حضرت شاہ آیت اللہ جوہری ؒ 1126تا1210ھ،اور حضرت شاہ ابو الحسن فرد ؒ 1185تا1234ھ جیسے با کمال صوفی بزرگ اور ممتاز شاعر تھے تو دہلی میں حضرت مظہر جانجاناںؒ 1668تا1781ء اور خواجہ میر دردؒ 1709تا1785ء کا وقت کے باکمال اہل اللہ میں شمار ہوتا تھا اور اسی دور میں میر تقی میرؔ 1724تا1810ء کے کلام میں بھی تصوف و اخلاق کی چاشنی ملتی ہے۔اس طرح حضرت شاہ کمال علی کمال ؒ کا یہ پورا عہد علم و دانش،تصوف و اخلاق اور شعر و ادب کا عہد کہا جا سکتا ہے۔ حضرت کمالؒ کی شخصیت باوجود اپنی عزلت پسندی اور گوشہ گمنامی کے رشد و ہدایت، تصوف و احسان اور شعر و ادب ہر جگہ اور ہر کہیں ممتاز و منفرد نظر آتی ہے۔
حضرت شاہ کمال علی کمال ؒ ایک صاحب علم و فضل اہل دل بزرگ اور با کمال شاعر تھے۔آپ کا تعلق حضرت سید آدم فاتح مانپور گیا کے مشہور سادات خاندان سے تھا اور آپ کا نانیہالی نسب نامہ چند واسطوں سے بہار کے مشہورصوفی عثمانی خانواد ہ حضرت مخدوم برہان الدین دیورویؒ سے ملتا ہے،آپ کے نانا حضرت شاہ غلام علی ؒ اپنے وقت کے مشہور اہل دل بزرگ تھے،آپ کی ابتدائی تعلیم اور روحانی تربیت اپنے نانا سے ہوئی۔آپ کے والد شاہ فیض علی گیاوی کا وطن اصلی نادرہ گنج گیا تھالیکن ان کا مستقل قیام عظیم آباد پٹنہ میں رہتا تھا،جہاں ایک بڑی جاگیر انہیں حاصل تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس کی آمدنی سالانہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔ حضرت شاہ کمال علی کمال ؒ کی اعلی تعلیم عظیم آباد پٹنہ میں ہوئی جس نے آپ کی فطری،ادبی و شعری صلاحیتوں کو ابھارا اور پروان چڑھایا لیکن اپنے نانا کے فیض و اثر سے آپ نے دنیا وی جاہ و جلال اور دولت و حشمت سے کنارہ کشی اختیار کی۔عظیم آباد کی امارت و ریاست اپنے بھائیوں کے حوالے کرکے دیورہ کی فقر و درویشی کو ترجیح دی اور اپنی پوری زندگی اپنے نانا اور پیر و مرشد مولانا شاہ غلام علی ؒ کے آستانہ برہانیہ پر فقر و درویشی اور قناعت کے ساتھ گذار دی۔
واقعہ یہ ہے کہ اردو شاعری کا آغاز دین و مذہب کے اظہار اور اس کی اشاعت کے وسیلہ کے طور پر ہوا،خصوصاً صوفیائے کرام نے اردو شعر و ادب سے اپنے دینی مقاصد اور تبلیغ و اشاعت کا کام لیا اور اپنی شاعری سے عوام کے دلوں کو چھونے اور ان کے اندر ایمان و یقین کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی۔ اپنے واردات قلبی اور پاکیزہ جذبات دلی کے بیان کے لئے اردو شاعری کو پیغام رسانی کا وسیلہ بنایا۔ اسی وجہ سے اردو شاعری میں شروع ہی سے اسلامی اقدار تصوف و اخلاق کے مضامین،دینی شعور اور مذہبی جذ بات کی آمیزش نظر آتی ہے۔ چنانچہ دور متوسط کے شعراء کا کلام عموماً اور دبستان دہلی میں خواجہ میر دردؔ اور عظیم آباد میں حضرت کمالؔ کا کلام خصوصاً صوفیانہ افکار اور روحانی اقدار سے لبریز ہے۔
حضرت شاہ کمال علی کمالؔ ؒ کا دور اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ اس دور میں اردو کی مثنویاں بہت زیادہ لکھی گئیں اور مثنویوں کی اس بھری محفل میں جس میں میر تقی میرؔ کی بعض مثنویاں،میر حسن کی سحر البیان ،دیا شنکر نسیم کی گلزار نسیم،اور مرزا شوق دہلوی کی مثنوی زہر عشق یقیناًنمایاں اور اردو شاعری خوشگوار جھونکوں کی طرح محسوس ہوتی ہیں،ان سب میں قصے کی سادگی،زبان کی صفائی،جذبے اور احساس کی آمیزش پائی جاتی ہے جو مثنوی کے فن کی اعلیٰ صفات ہیں ۔لیکن اردو مثنویوں کے ستاروں کے اس جھرمٹ میں حضرت کمال ؒ کی مثنوی مجھے تنہا نظر آتی ہے جس میں مثنوی کی کی تمام فنی خصوصیات کے باوجود صوری اور معنوی لحاظ سے ندرت پائی جاتی ہے اور تقریباًدو سو برس کی قدیم مثنوی ہونے کے باوجود دور جدید میں اقبال ؔ کی مثنوی ساقی نامہ کے انداز و معیار کی معلوم ہوتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر اٹھارہویں صدی میں بیسویں صدی کا ذہن و دماغ لے کر پیدا ہوا ہو،ساتھ ہی دور متوسط کے اساتذہ سخن کی طرح ان تمام فنی خصوصیات کا حامل ہے،جو مثنوی کا طرہ امتیاز ہوتی ہیں۔زبان کی صفائی،نازک خیالی،فکر کی پاکیزگی اور جذبات کی مصوری میں کسی سے کم نہیں بلکہ بہ اعتبار معنویت اور ندرت فکر وخیال اپنے معاصرین کی مثنویوں سے کہیں برتر ہے۔
حضرت شاہ کمال علی کمالؔ ؒ کی یہ طویل قلمی مثنوی تقریباً569اشعار پر مشتمل ہے۔مثنوی کا آغاز تمہید کے پانچ اشعار سے ہوتا ہے اس کے بعد مختلف عنوانات قائم کئے ہیں۔ہر عنوان کے تحت فلسفیانہ مضامین اور مسائل تصوف کو نہایت دلکش انداز بیان اور سلیس زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔زبان و بیان کی جو قدرت آپ کو حاصل تھی اس کی بنا پر اپنے دینی مقاصد کے اظہار میں یہ مثنوی پوری طرح کامیاب ہے۔مثنوی کی ابتدا ان چند اشعار سے اس طرح ہوتی ہے:
الہی تو ہے مطلب تو ہے برہاں!!!!! تری ادراک میں عالم ہے حیراں
تری ادراک پر کو لاوے حجت!!!!! کہ عاجز ہیں یہاں سب اہل حکمت
تو ہے ظاہر تو ہے مظہر جہاں کا!!!!! تو ہے موجد بیشک جسم و جاں کا
تجھے ظاہرکوئی کرسکتا ہے آہ!!!!! مگر تو آپ ظاہر ہو میرے شاہ
حضرت کمال کی یہ مثنوی اپنے انداز بیان ،فلسفیانہ خیالات اور شعری خصوصیات کے لحاظ سے اپنے دور کے مثنویوں کے مقابلہ میں بڑی حد تک علامہ اقبال کے ساقی نامہ سے مماثلت رکھتی ہے۔حالانکہ اقبال دور جدید کے بلند پایہ اور اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے شاعر ہیں۔خیالات کی بلندی،فلسفہ آمیز تصورات ،دلکش انداز اور زبان و بیان کی تازگی و شگفتگی کے لحاظ سے اردو شاعری میں ساقی نامہ مثنوی کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ حضرت کمالؒ ؔ کی اس مثنوی کا اگر اقبالؔ کے ساقی نامہ سے موازنہ کیا جائے تو زمان و مکان کے تقریباً دو سو برس کے فرق کے باوجود،زبان کی روانی اور برجستگی کے ساتھ فلسفیانہ خیالات کی آمیزش کا دونوں کے یہاں ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
ساقی نامہ کی ابتدا اقبالؔ نے موسم بہار کے ذکر سے کیا ہے اور ’کاروانِ بہار‘ کے خیمہ زن ہونے نقشہ بڑے دلکش انداز میں کھینچا ہے۔ ملاحظہ ہو:
ہوا خیمہ زن کاروان بہار
ارم بن گیا دامن کوہسار
گل و نرگس و سو سن ونسترن
شہید ازل لالہ خونیں کفن
فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور
ٹھہرتے ہیں آشیاں میں طیور
ساقی نامہ کے اس پورے بند کو پڑھیے اور حِرت کمال کی مثنوی میں ’فصل گل عندلیب ‘ کی سرخی کے تحت لکھے ہوئے چند اشعار دیکھئے:
عجب کیا جو ساقی کرے سیر باغ !!!!! نگہ سو کرے گل کو ملنے کا ایاغ
چمن میں اب کی نیرنگی عجب ہے !!!!! صبا سے پوچھ بلبل کیا سبب ہے
بہار اس شان سے آتی کہاں تھی !!!!! کہ رنگیں ہے چمن کی خاک زر بھی
سماتا نہیں ہے گل اب پیرہن میں !!!!! یہ کس کی بو صبا لائی چمن میں
عجب کیا ہے جو بلبل کے فغاں سے !!!!! گرہ کھل جائے سوسن کی زباں سے
عجب رنگ بہار ہے یاسمن میں !!!!! گل خورشید پھو لا ہے چمن میں
زبان کی خوبی و خوبصورتی اور انداز بیان کی دلکشی و رنگینی دونوں میں یکساں پائی جاتی ہے۔
خدا کی حمد و ثنا اور مناجات سے پہلے شاعر نے اثبات وجود تعالیٰ کے عنوان سے خدا کے وجود پر اشعار کہے ہیں،خدا کے وجود کو جس فلسفیانہ انداز اور دلائل سے ثابت کیا ہے وہ حضرت کمال ؒ کے علم و فضل اور فلسفہ و حکمت پر ان کی ماہرانہ قدرت کی دلیل ہے۔ فلسفہ کے اتنے عمیق مسائل کو شعر کے جامہ میں پیش کرنا ان کا کمال ہے۔عدم ،وجود ،واجب،قدیم اور حادث کی فلسفیانہ بحثوں کوجس خوبی سے اپنے شعر میں پیش کیا ہے اس سے ان کے قدرت کلام کا اندازہ ہوتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہو:
یہ سرخی ہے اثبات واجب کا باغ !!!!! گل اور عندلیبوں کا دل داغ داغ
غرض اس کا اثبات ممکن کہاں !!!!! دلیل اپنی خود آپ ہے بے گماں
سمجھ جاؤ مفہوم واجب سے تم !!!!! حکیموں کا یاں ہوش ہوتا ہے گم
فقیروں کا جب سے ہوا خاک پا !!!!! میرے دل سے حجت کا رتبہ اٹھا
اہل دل فقیروں کی صحبت اور ان کے خاک پا نے دل سے دلیل و حجت کو بے وقار و بے رتبہ بنا دیا اور مشاہدہ حق سے ذہن و دل روشن ہو گیا اسی کو اقبالؔ نے کہا ہے:’’ لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف‘‘
اس طرح مسلسل بیس اشعار میں اثبات واجب تعالیٰ پر دلیلیں دی ہیں اور اس بحث کا خاتمہ اس شعر پر کیا ہے:
جو سابق ہوعدم بیشک قدیم ہے !!!!! تو پس حادث کہاں رب کریم ہے
’اثبات واجب تعالیٰ‘کے بعد ’حمد‘کی سرخی کے تحت 32اشعار میں’حمد و مناجات‘ کے پر کیف و دل کش اشعار ہیں،ہر شعر کیف و جذبہ سے بھر پور ہے، طبیعت میں جوش اور روانی ہے،زبان ایسی سہل و رواں جیسے اس دور کا کوئی شاعر ہو،ملاحظہ ہو:
الٰہی حمد تیری کب بیاں ہو !!!!! اگرچہ مو بہ مو تن پر زباں ہو
الٰہی شعلہ کر خاک سیہ کو گرا اس کاہ پر بر ق نگہ کو
الٰہی قفل دل ہے زنگ بستہ !!!!! کلید قفل سے کردے شکستہ
الٰہی دل کو نازک اس قدر کر !!!!! کہ موج بوئے گل ہو تیغ اس پر
اس سے آگے کے اشعار سننے سے پہلے اقبالؔ کے ساقی نامہ کے یہ اشعار پڑھئے:
شراب کہن پھر پلا ساقیا !!!!! وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا !!!!! مری خاک جگنو بنا کر اڑا
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے !!!!! دل مرتضیٰ سوز صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر !!!!! تمنا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوزجگر بخش دے !!!!!مرا عشق میری نظر بخش دے
اب حمد و مناجات کے تحت حضرت کمالؒ کے باقی اشعار ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے،ان میں کتنی سلاست اور کیسی روانی ہے،ٹوٹے ہوئے دلوں کی تاثیر،اشکوں کا سیل رواں،جذبہ کا حسن،انداز بیان کی دلکشی اور زبان کی سادگی و پرکاری میں دونوں کے یہاں کیسی مناسبت و مماثلت پائی جاتی ہے:
الٰہی غم سے دل بیتاب کر دے !!!!! گداز عشق سے سیماب کردے
الٰہی اس کے نالہ کو اثر بخش !!!!! یہ خاک سوختہ کو اک شرر بخش
الٰہی رحم کر اس خستہ دل پر !!!!! بہا سیل کرم اس مشت گل پر
الٰہی اشک کو میری اثر بخش !!!!! یہ طفل خستہ کو یعنی جگر بخش
الٰہی ہجر سے ہوں سخت رنجور !!!!! جگر پر خوں ہے دل ناسور ناسور
الٰہی معرفت اپنی عطا کر !!!!! الٰہی یہ مری حاجت روا کر
الٰہی غرق ہوتا ہوں میں دم میں !!!!! بہا جاتا ہوں سیلاب الم میں
تلاطم میں پڑی ہے کشتیِ دل !!!!! مگر موجِ کرم پہنچا دے ساحل
مجھے تو رنگ میں اپنے ڈوبا دے !!!!! کلام اپنے سے کچھ مجھ کو سنادے
جہاں کے لوح سے دھو دے مرا نام !!!!! رہے دل پر مرے نقش ترا نام
گریباں چاک ہو دست جنوں سے !!!!! مثال گل ہو رنگیں جام خوں سے
یہ مژگاں اشک خونیں سے بھری ہیں !!!!! شرر جھڑتے ہیں گویا پھلجڑی میں
پلا پیری میں ساقی جام توحید !!!!! کہ شبنم صبح کو ہوجائے خورشید
حمد و مناجات کے اس پورے حصہ کو پڑھئے تو کہیں میر تقی میرؔ کی زبان ہے تو کہیں خواجہ میر دردؔ کا سوز،کہیں حالیؔ کی سادگی و پرکاری اور کہیں اقبالؔ کا جوش وجذبہ،غرض پوری نظم ایک جوئے کہستاں کی طرح بل کھاتی ہوئی رواں دواں ہے۔زبان میں نئی تراکیب،حسن ادا اور پر تاثیر الفاظ کااچھوتااندازہے۔دل بیتاب،گداز عشق،دل ناسور ناسور،سیلاب الم ،کشتی دل، اشک خونیں، جگر پرخوں،خاک سوختہ،دست جنوں،جام خوں،گل خورشید جیسے الفاظ و تراکیب اس طرح استعمال ہو رہے ہیں جیسے اس دور کے کسی شاعر نے اپنے جذبہ کو الفاظ کے سانچہ میں ڈھالا ہو۔
حضرت شاہ کمال علی کمالؔ دیورویؒ کی اس مثنوی کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ تقریباً دو سو برس قدیم ہونے کے باوجود زبان و بیان کے لحاظ سے دور جدید کی مثنویوں کی خصوصیت اور رجحانات کی حامل ہے،فرسودہ داستان و حکایات سے ہٹ کر ،اعلیٰ خیالات، پاکیزہ جذبات اور روحانی مشاہدات کے اظہار کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ قدیم مثنویوں میں مولانا رومؒ کی فارسی مثنوی اور دور جدید میں شاعری مشرق علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ،دونوں کی روح اور جذبے کی پرچھائیاں اور تجلیاں اس میں ملیں گی،فنی حسن اور فکر تازہ کا حسین امتزاج ہے۔ فلسفہ، تصوف ،عشق اور یقین کے مضامین کے ساتھ گل و لالہ کی بہار اور حسن فطرت کی مرقع نگاری کا بہترین شاہکار ہے۔حضرت کمالؔ کی اس مثنوی میں حمد و مناجات کا خوبصورت انداز اور موثر نمونہ ہمیں ملتا ہے۔ یہ حمدیہ شاعری اپنے لازوال فن اور بے مثال فکر کے ساتھ اردو شعر و ادب میں ہمیشہ زندہ و تابندہ اور یاد گار رہے گی۔
0 comments:
Post a Comment