حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ
ایک گم نام مگر باکمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل
از: طیب عثمانی ندوی
ریاست بہار ضلع اورنگ آباد میں ایک چھوٹی سی قدیم بستی ’سِملہ‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں ایک قدیم صوفی عثمانی خانوادہ آباد ہے۔ اس خانوادہ میں شروع ہی سے علماء، صوفیاء اور اہل دل بزرگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ سِملہ کے یہ تمام بزرگ عام طور پر خلوت نشیں اور اہل دل رہے ہیں۔ عبادت و ریاضت، ذکر و اشغال اور خموش رشد و ہدایت میں پوری زندگی مشغول رہے۔ معروف خانقاہی مراسم کی کوئی پابندی نہیں رہی، اسی مبارک خانوادہ میں ایک معروف شخصیت شیخ وقت، مرد درویش، مجاہد جلیل حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی پیدائش ہوئی۔ جنہوں نے اپنی درویشانہ زندگی اور خلوت نشینی کے باوجود زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحی کارنامے انجام دیے، علم و ادب، تصوف و احسان، اصلاح معاشرہ، سیاست و اجتماعیت گویا زندگی کے ہر شعبہ میں تعمیرو اصلاح کے نقوش ثبت کئے۔ اور مرجع خلائق ہوئے۔ آپ کی ولادت باسعادت، 9؍صفر المظفر 1307ھ بمقام سملہ ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیسویں (38ویں) پشت میں، خلیفہ راشد ثالث حضرت سیدنا عثمان غنی ذیِ النورین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اس خاندان کی قدر مشترک روحانیت رہی ہے۔ ذوق عبادت، تسبیح و تلاوت اور فکر آخرت اس کا نمایاں وصف رہا ہے۔ اسی دینی و روحانی ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں اور پروان چڑھے۔
خاندان کے قدیم روایت کے مطابق جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانیؒ نے بھی گھر پر ابتدائی اردو نوشت و خواند، قرآن مجید اور فارسی کی تعلیم مکمل کی۔ پھر جدید تعلیم کے لئے گیا شہر کے مشہور تعلیمی ادارہ ’’ہری داس سیمنری اسکول‘‘ (ٹاؤن اسکول، گیا) میں داخل کئے گئے، گیا سے مزید اعلیٰ انگریزی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جو ان دنوں ’’اینگلو محمڈن علی گڑھ کالج‘‘ کے نام سے مشہور تھا میں داخلہ لیا اور میٹرک تک تعلیم وہاں حاصل کی۔ اسی درمیان ’’تحریک ترک موالات‘‘ اور خلافت تحریک شروع ہوگئی۔ آپ بھی اپنے دینی و ملی اور قومی جوش و جذبہ کے باعث علی گڑھ کی انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر جنگ آزادی کی تحریک سے عملاً وابستہ ہوگئے۔ پھر جب مشرق (کلکتہ) کے مطلع صحافت سے ’’الہلال‘‘ طلوع ہوا تو آپ اس کے ادارہ میں انگریزی مترجم کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ ان دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار ’’الہلال‘‘ اہل علم مشاہیرو علماء و ادباء کا مرکز بن گیا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، خواجہ عبدالحئی، عبداللہ العمادی جیسے باکمال اہل علم ’الہلال ‘ کی مجلس ادارت میں شریک تھے۔ عرصہ تک الہلال سے وابستگی کے باعث، مولانا آزاد اور دیگر اہل علموں کی صحبت نے علمی و ادبی طور پر آپ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ جب الہلال سے وابستہ تھے، غالباً اسی زمانہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کی نظربندی کا واقعہ بھی پیش آیا اور انگریز حکومت نے مولانا آزاد کو رانچی میں نظر بند کر دیا۔ آپ چونکہ شروع ہی سے مولانا آزاد کی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ کے رفیق و دم ساز اور محرم راز رہے اس لئے رانچی کی نظر بندی کے زمانہ میں بھی آپ رانچی میں مولانا آزاد کے رفیق و معاون بن گئے۔ جب وہاں مولانا آزاد نے ’’مدرسہ اسلامیہ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا، جو آج بھی وہاں موجود ہے تو آپ اس مدرسہ میں مدرس اول کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ مولانا آزاد کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد اپنے فطری دینی ذوق اور تصوف و احسان سے خاندانی شغف کے باعث، خالص دینی مطالعہ اور روحانی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ میں قیام فرمایا۔ جس زمانہ میں آپ پھلواری شریف میں قیام پذیر ہوکر علمی و دینی مطالعہ میں مشغول و منہمک تھے، اسی زمانہ میں، خانقاہ مجیبہ پھلواری شریف سے شائع ہونے والے ایک اہم دینی و علمی ماہنامہ ’’معارف‘‘ کے مدیر رہے، جو آپ کی علمی گہرائی، دینی بصیرت اور ادبی صلاحیتوں کی روشن یادگار ہے۔ اس طرح علی گڑھ کی تعلیم کے اختتام کے بعد آزادانہ طور پر اپنی محنت اور ذوق مطالعہ سے اپنی دینی تعلیم کی تکمیل فرمائی۔
حضرت شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کی زندگی کے احوال و واقعات 1912ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رفاقت اور ان کے اخبار الہلال کی صحافت سے 1947ء کی جنگ آزادی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی ذات والا صفات اس پورے دور کی دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی تحریکات کی تاریخ ہے۔ 15؍اگست 1947ء کو جب ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا، اس سے ایک ماہ پہلے، 19؍جولائی 1947ء کو آپ کی زندگی کا آفتاب غروب ہوگیا۔
خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں، کچھ دنوں قیام اور اپنی علمی و دینی اور روحانی تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد آخر میں اپنے وطن مالوف ’سملہ‘ میں مستقل قیام پذیر ہوئے، معاش کے لیے تھوڑی سی زمینداری اور کاشتکاری موجود تھی اس کی دیکھ بھال اپنے چھوٹے بھائی کے حوالہ کردی اور ذریعہ معاش سے بے فکر ہوکر، پوری زندگی توکل، فقر و درویشی کے ساتھ دین و ملت کی خدمت اور رشد و ہدایت کے لئے وقف کردی آپ کی بیعت اپنے جد امجد حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید فردوسی سملویؒ کے ہاتھ پر، حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمدیحیٰ منیریؒ کے سلسلہ فردوسیہ میں ہوئی۔ حضرت شہیدؒ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے انگریزوں کے تسلط کے بعد، ہندوستان میں دین کے قیام و بقا کے لئے ’’بیعت طریقت‘‘ میں ’’بیعت جہاد‘‘ کو جاری فرمایا۔ حضرت مولانا شاد محمد قاسم عثمانی فردوسی نے اپنے جدامجد کے ہاتھوں پر، بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد بھی کیا۔ یہ بیعت جہاد اور پیر و مرشد حضرت شہیدؒ کا فیضان نظر ہی تھا، جس نے زندگی کے آخری لمحوں میں بھی آپ کے اندر، جوانوں کا سا جوش و ولولہ، دین کے قیام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے والہانہ عشق پیدا کردیا تھا، ایسی بے چین و سیماب وش طبیعت پائی تھی کہ ملک و ملت اور دین کا درد ان کا اپنا درد بن گیا تھا، پھر پوری زندگی دین و ملت کی خدمت اور رشد ہدایت میں گذار دی۔
خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف میں، کچھ دنوں قیام اور اپنی علمی و دینی اور روحانی تعلیم و تربیت کی تکمیل کے بعد آخر میں اپنے وطن مالوف ’سملہ‘ میں مستقل قیام پذیر ہوئے، معاش کے لیے تھوڑی سی زمینداری اور کاشتکاری موجود تھی اس کی دیکھ بھال اپنے چھوٹے بھائی کے حوالہ کردی اور ذریعہ معاش سے بے فکر ہوکر، پوری زندگی توکل، فقر و درویشی کے ساتھ دین و ملت کی خدمت اور رشد و ہدایت کے لئے وقف کردی آپ کی بیعت اپنے جد امجد حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید فردوسی سملویؒ کے ہاتھ پر، حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمدیحیٰ منیریؒ کے سلسلہ فردوسیہ میں ہوئی۔ حضرت شہیدؒ وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے انگریزوں کے تسلط کے بعد، ہندوستان میں دین کے قیام و بقا کے لئے ’’بیعت طریقت‘‘ میں ’’بیعت جہاد‘‘ کو جاری فرمایا۔ حضرت مولانا شاد محمد قاسم عثمانی فردوسی نے اپنے جدامجد کے ہاتھوں پر، بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد بھی کیا۔ یہ بیعت جہاد اور پیر و مرشد حضرت شہیدؒ کا فیضان نظر ہی تھا، جس نے زندگی کے آخری لمحوں میں بھی آپ کے اندر، جوانوں کا سا جوش و ولولہ، دین کے قیام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے والہانہ عشق پیدا کردیا تھا، ایسی بے چین و سیماب وش طبیعت پائی تھی کہ ملک و ملت اور دین کا درد ان کا اپنا درد بن گیا تھا، پھر پوری زندگی دین و ملت کی خدمت اور رشد ہدایت میں گذار دی۔
آج کے دور میں تصوف و احسان اور سلوک و طریقت کا موضوع بڑا نازک اور نزاعی بن گیا ہے، اس کی نت نئی تعبیر ہیں، جو مختلف حضرات، مختلف الفاظ اور اپنے اپنے انداز نظر سے کرتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے تصوف و احسان کے وسیع مفہوم کو اختیار کیا آپ کے نزدیک اگر تصوف، کتاب و سنت اور شریعت کے حدود میں ہو تو لائقِ تحسین ہے۔ کتاب و سنت اور شریعت سے ہٹ کر اگر تصوف ہر کوئی چیز در آتی ہے تو قابل اصلاح ہے ورنہ کلیۃً لائق رد ہے۔ آپ کے نزدیک تصوف دراصل احسان کا نام ہے، جو شریعت کی کامل پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔ سلوک و تصوف کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ کے خطوط کا مجموعہ’ نقش دوام ‘کے باب اول ’تصوف و احسان‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ جن سے ہمیں فکر کی تابانی اور یقین کی گرمی دونوں ہی حاصل ہوتی ہے۔
جناب مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ کے اخلاق و اوصاف میں خلق محمدی کا عکس نظر آتا ہے، وہ سراپا اخلاص و عمل تھے۔ عشق رسول اور اتباع رسول ان کی سیرت و کردار کا نمایاں عنصر تھا۔ اپنی گفتگو، بات چیت اور رہن سہن میں ہمیشہ اسوۂ محمدی پیش نظر رکھتے۔ عادات و خصائل پسندو ناپسند سب میں اتباع سنت کو حرز جاں بنائے ہوئے تھے۔ آپ کا لباس اور انداز شرعی اور عالمانہ تھا، کھدر کا سفید اور لانبا کرتا، ٹخنوں سے اونچا پائجامہ، سفید تہ دار عمامہ اور سفید پٹکہ ہمیشہ استعمال فرماتے۔ حالت سفر میں چستی و آسانی کے لئے پٹکہ کو جو کاندھے پر رہا کرتا تھا کمر سے باندھ لیتے تھے۔ غالباً 46ء سے پہلے کا زمانہ تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش انتہائی عروج پر تھی، علماء اور اہل دین کی توہین اور استہزا عام تھا، گیا اسٹیشن پر ایک صاحب جو جدید تعلیم سے آراستہ، کوٹ، پینٹ اور ہیٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے، آپ کو دیکھ کر ٹہلتے ہوئے آپ کے قریب آئے اور تمسخرانہ انداز میں سنجیدہ بن کر پوچھا:
’’آپ کس صاحب کے خانساماں ہیں؟‘‘
آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’محمد صاحب کے‘‘ (ﷺ)وہ حضرت شرمندہ ہوکر الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا، آنحضرت ؐ کی غلامی اور ان کے ’’خانساماں‘‘ ہونے کے احساس سے آپ کی آنکھیں روشن اور پیشانی تابناک ہوگئی۔
آپ عنفوان شباب ہی سے تہجد اور ذکر و اشغال کے پابند تھے، ساتھ ہی اپنے متوسلین اہل قرابت اور تعلق کو ہر خط میں نماز کی تاکید فرماتے، فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ آیت ربانی کی طرف متوجہ کرتے اور خود اس کے عملی نمونہ تھے، اپنے ایک عزیز کو ایک خط میں فرماتے ہیں:
’’آپ یقین کریں، حقیقی سعادت سے ہم ہرگز بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک ہم عبادت کو اپنا اوڑھنا، بچھونا نہ بنالیں، عبادت دلوں کی پونجی، متقیوں کا زیور، مردوں کا ہنر، ہمت والوں کا پیشہ اور حاصلِ عمر ہے۔‘‘
آپ کی شخصیت بڑی دل آویز، ہمہ گیر، جاذب نظر اور پرسوز و پرکشش تھی، وہ محبت، معرفت اور نگاہ کے حسین امتزاج تھے، اسی چیز نے ان کے اندر بڑی جامعیت پیدا کردی تھی، انفرادی تزکیہ و اصلاح، باطنی و روحانی ارتقا اور دینی انداز فکر کے ساتھ سیاسی و اجتماعی جدوجہد کے مختلف دھارے آپ کی زندگی میں آکر ملتے تھے اور ان سب کا سرچشمہ عشق نبوی تھا، ان کی زندگی اور فکر کی ساری روشنی و تابندگی ’’چراغِ مصطفوی‘‘ ہی سے فروزاں تھی، چنانچہ حبّ رسول اور اتباع سنت سے آپ کی پوری زندگی روشن و تابندہ تھی۔
آپ کی سیاسی و اجتماعی زندگی کا آغاز، جنگ آزادی کے مجاہد کی حیثیت سے 1912ء سے ہوا، تحریک ترک موالات کے دور میں انگریزی تعلیم کو خیرباد کہہ کر تحریک خلافت میں شریک ہوئے اور اس دورے کے اہل دین علماء اور سیاسی شخصیات سے آپ کا براہ راست رابطہ و تعلق تھا۔ الہلال کی صحافت کے ساتھ مولانا ا بوالکلام آزاد کی جماعت’ حزب اللہ‘، شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحبؒ کی خفیہ تحریک جہاد، مولانا عبید اللہ سندھی ؒ جیسی انقلابی شخصیت سے ذاتی مخلصانہ مراسم، مولانا سندھی کا ہندوستان سے فرار اور ریشمی خطوط والا واقعہ، ان سب سے آپ کا براہ راست ربط و تعلق تھا اور تمام تحریکوں میں آپ نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ بہار میں اقامت دین اور نظام شرعی کے قیام کی اہم تحریک امارت شرعیہ میںآپ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے شریک کار اور رفیق و غمگسار رہے۔ امارت شرعیہ کی تحریک کو صوبہ کی اہم زندہ اور فعال تحریک بنانے میں آپ کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ مولانا سجادؒ ، قاضی احمد حسینؒ اور شاہ محمد قاسمؒ امارت شرعیہ کے حقیقی عناصر ترکیبی تھے جن سے امارت شرعیہ بہار میں پروان چڑھی۔ آپ اپنے عنفوان شباب ہی سے عملاً اس وقت کے اکابر علماء اور سیاسی شخصیات کے ساتھ وابستہ رہے اور ان کے سیاسی کاموں میں عملاً شریک رہے لیکن جنگ آزادی کی تاریخ میں ان کا کہیں نام نظر نہیں آتا، وجہ ظاہر ہے، حضرت مخدوم الملک بہاریؒ کا فیضان ’’خاک شوگم نام شو‘‘ آپ اس کے حقیقی نمونہ تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے آپ کے کتنے قریبی تعلق تھے اور مولانا آزاد ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے جس کا ذکر مولانا شاہ محمد عثمانی مدظلہ نے اپنی کتاب ’ٹوٹے ہوئے تارے‘ میں مولانا عبیداللہ سندھی کے حالات کے تذکرہ میں لکھا ہے:
’’ہمارے ایک عزیز (شاہ محمد قاسم عثمانی) نے جو ان دنوں مولانا کے معتمد لوگوں میں تھے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو دہلی میں مولانا آزاد کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ ان کی گرفتاری کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ بھاگ جائیں۔ یہ بیان قریب قیاس اس لئے بھی ہے کہ مولانا سندھی دہلی سے بھاگ کر کچھ عرصہ سندھ کے دیہاتوں میں روپوش رہے اور بہر حال مولانا افغانستان پہنچ گئے اور مولانا محمود الحسن کے بتائے نقشہ پر کام کرتے رہے۔‘‘
اسی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمود الحسنؒ کا وہ خفیہ پیغام جو ’’ریشمی رومال‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس کے پہنچانے میں بھی مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسیؒ براہ راست شریک تھے۔ اس لئے کہ آپ کے براہ راست تعلقات، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ تینوں سے تھے۔ ان کی معیت میں آپ نے جنگ آزادی میں علمی حصہ لیا، تحریک خلافت میں شریک کار رہے۔ مسلمانوں کی دینی تشخص کے ساتھ کانگریس کی جنگ آزادی کی حمایت کی، جمعیۃ علمائے ہند سے عملی تعلق رہا اور امارت شرعیہ کے قیام سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اسی کے روح رواں اور ممد و معاون بنے رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی اتنی گوناگوں، متنوع اور ہر دل عزیز تھی کہ اس مختصر مضمون میں آپ کی رنگارنگ شخصیت کے حقیقی خدوخال کو ابھارنا ممکن نہیں۔ آپ بیک وقت بوریہ نشین مرد درویش تھے اور مجاہد جلیل بھی، قائد بھی تھے اور وقت پڑنے پر والنٹیراور رضاکار بھی، غرض کہ ملک و ملت کے خادم اور مخدوم دونوں ہی تھے۔ آپ نے زیادہ عمر نہیں پائی اور تقریباً ۵۹ برس کی عمر میں اپنے وقت کے یہ گم نام مگر باکمال شیخ وقت، و درویش اور مجاہد جلیل ع نشان مرد مومن باتو گویم چوں مرگ آ ید تبسم برلب اوست کے مصداق لقویٰ کے مرض الموت میں مبتلا ہوئے، فالج کا اثر چہرہ اور حلق پرہوا، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور کوئی ٹھوس غذا فرو حلق نہیں ہوتی، علاج معالجہ جاری رہا ،تقریباً چھ مہینے بستر مرض پر رہے، ڈاکٹر حیرت زدہ تھے کہ چھ مہینے سے بغیر غذا کے ہیں،رقیق غذا بھی، چند قطرے مشکل سے فرو حلق ہوتی، آخر آپ زندہ کیسے ہیں؟ یہ صرف آپ کی روحانیت اور کرامت ہے۔ اس حالت میں بھی آخر وقت تک ذہن و دماغ پوری طرح کام کرتا رہا تھا۔ مسلسل لوگوں سے دین کی باتیں کرتے اور تلقین و ہدایت فرماتے رہتے۔ شدت تکلیف کے باوجود، چہرہ ہمیشہ پرسکون اور روشن رہا، اسی حال میں آخر وقت موعود آگیا اور آپ کی روح اپنے رب اعلیٰ سے جاملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر، وقت کا یہ باکمال آفتاب رشد و ہدایت غروب ہوگیا، 29؍ شعبان العظم 1366ھ مطابق 19؍جولائی 1947ء اپنے آبائی گاؤں سملہ سے جانب مشرق خاندانی قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اور رمضان المبارک کا چاند بعد تدفین مطلع غرب پر پیغام مغفرت دیتانظرآیا۔ خدا مغفرت کرے ع
وہ اپنی ذات سے اک انجمن تھے
اپنے وقت کے گمنام مگر با کمال شیخ وقت، مرد درویش اور مجاہد جلیل محبوب الا ولیاء حضرت شاہ محمد قاسم فردوسی ؒ کے وصال کے بعد خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ کی سجادگی جناب الحاج حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ کو عطا ہوئی،آپ کا انتقال پر ملال ماہ 22 ذیقعدہ1425ھ مطابق 4جنوری2005ء کو ہوا اور آپ اپنے خاندانی قبرستان سملہ میں مدفون ہوئے۔آپ کے وصال کے بعد سملہ میں حضرت شاہ احمد کبیر ابو الحسن شہید ؒ کے عرس مبارک کے مو قع پر 6 رجب المرجب1425ھ مطابق12اگست 2005بروز جمعہ بعد نماز مغرب علماء اور مشائخ کی موجودگی میں عزیزی مولانا شاہ ابودجانہ تسنیم عثمانی فردوسی سلمہ اللہ تعالیٰ کی دستار بندی ہوئی اور سجادگی عمل میں آئی۔اس طرح عزیز موصوف اپنے تمام خاندانی تبرکات کے محافظ اور اپنے بزرگوں کی روش اور نقش قدم پر رشد و ہدایت کے خلیفہ و مجاز ہیں۔
ہے خراب باد ہ ساقی کمالی کی دعا
حشر تک یا بوالحسن آباد میخانہ رہے
0 comments:
Post a Comment