مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ
کچھ یادیں کچھ باتیں
از: طیب عثمانی ندوی
آج سے تقریباً نصف صدی سے کچھ زائد ہی 1944ء تقریباً 14 برس کی عمر میں جب میں نے بہ سلسلہ تعلیم ندوہ میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ حضرت مولانا علی میاںؒ کو دیکھ کر جو نقش جمیل میرے قلب پر پڑا تھا آج تک قائم ہے۔ وہ محبوب و دلنواز ذات ادب اسلامی کی نابغۂ روزگار شخصیت، شیروانی میں ملبوس، سیاہ داڑھی، آنکھوں میں یقین کا نور، چہرہ صباحت و بشاشت کا آئینہ جس پر تقویٰ کا جمال نمایاں تھا۔ اس طویل مدت کے میرے شب و روز آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ رہے۔ ندوہ کا یہ گوہر شب چراغ، علم و ادب کا مینارہ نور اور روحانیت و تقویٰ کا یہ آفتاب بیسویں صدی کے ساتھ31؍دسمبر 1999ء کو غروب ہوگیا اور جسے رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ کی ۲۳ویں شب قدر نے اپنی آغوش سعادت میں لے لیا۔
حضرت مولانا سیدابو الحسن ندیؒ کی وفات حسرت آیات سے بلاشبہ ندوہ میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے، علامہ شبلیؒ ، صاحب گل رعنا و نزہت الخواطر، مولانا عبدالحئیؒ اور مولانا سلیمان ندویؒ کی علمی و ادبی اور دینی خصوصیات و جامعیت کے ساتھ جانشینی جس طرح حضرت مولاناؒ نے کی اور ان کے علمی و ادبی کارناموں میں جو اضافہ کیا وہ قابل قدر ہے۔ مجھے یقین ہے مولانا نے ندوہ کے اہل علم و تقویٰ کی جو ٹیم چھوڑی ہے وہ انشاء اللہ ان کی جگہ لے لے گی اور ان کے بعد ندوہ انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں آپ کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے۔
مولانا کی پہلی گراں قدر تصنیف سیرت سید احمد شہیدؒ ندوہ آنے سے پہلے پڑھ چکا تھا اور اس کا ایک دھندلا سا نقش ذہن پر موجود تھا، پھر جب قریب سے دیکھا تو ان کو اپنے سے قریب تر پایا۔ اپنے گھر کا ماحول دینی تھا خاندانی طور پر بیعت طریقت کے ساتھ بیعت جہاد سے کان آشنا تھے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن سمجھ میں آیا اور شوق جہد و عمل کے جذبہ میں اضافہ ہوا۔ پھر ایسا ہوا کہ مولانا کی ذات و شخصیت مجھے اپنی طرف کھینچتی چلی گئی، فکر و نظر کے بعض زاویوں کے فرق کے باوجود محبت و عقیدت سے معمور یہ دل آج بھی ویسا ہی ہے۔ مگر میرے جذبہ دل کی تاثیر عجب الٹی نکلی۔ میرا ذہن و دماغ مولانا سید ابوالا علیٰ مودودیؒ کی فکر اور ان کی کتابوں سے قریب ہوتا گیا اور فکری طور پر میں تحریک اسلامی سے قریب ہوگیا۔ مولانا علی میاںؒ ان دنوں حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی تحریک تبلیغ سے زیادہ قریب ہوگئے تھے اور عملاً اس کے پرجوش داعی تھے۔ ندوہ میں بڑے بڑے اجتماعات ہوتے، مولانا کی پرجوش و دلنشیں تقریریں ہوتیں۔ ان کی معیت میں ہم ندوہ کے طلباء چٹھی کے دن ہر جمعرات ور جمعہ کو لکھنؤ کے اطراف ودیہات اور قصبات میں تبلیغ کے لیے نکلتے۔ اس طرح مولانا کی صحبت و معیت میں کافی وقت گزرتا اور واقعہ یہ ہے کہ بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی۔ دل و دماغ کی یہ کشمکش پورے ندوہ کی تعلیمی زندگی میں میرے ساتھ رہی۔ فکر مودودویؒ نے دماغ پر قبضہ کرلیا تھا۔ مذہب کا انقلابی تصور ذہن پر سوار تھا۔ ندوہ کے ماحول میں تبدیلی آرہی تھی یا کی جارہی تھی، فکر شبلی پر ذوق رحمانی و تھانوی پروان چڑھانے کی کوشش تھی۔ وقت کے روحانی شیوخ ندوہ کے مہمان خانہ میں ہفتوں ٹھہرائے جاتے، اہل دل جمع رہتے، ہم طلباء سے مولانا فرماتے ’’ان کی صحبتوں میں بیٹھئے ان کے یہاں مغز ہے، ہمارے یہاں تو صرف چھلکا ہے۔‘‘ میں اکثر ان بزرگوں کی نشستوں میں جایا کرتا، ان کی باتیں سنتا، اہل دل بزرگوں کے قصے بیان ہوتے۔ حضرت جی کے اقوال اور باتیں ایسی جن سے زندگیاں سنورتی ہیں۔ مگر دماغ پر سے فکر مودودیؒ کا انقلابی نشہ اترتا نہ تھا۔ مولانا کے سامنے تو نہیں، ادب مانع تھا، اپنے ساتھیوں کے درمیان کہتا ’’بھائی یہ مغز جو یہاں ہے وہ تو ہمارے گھروں میں موجود ہے، ہم تو یہاں شبلی و سلیمان کے علم و ادب کے چھلکے لینے آئے ہیں۔‘‘ شیخ حرم کی باتیں ذہن کو زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ میرے رگ و پے میں جو شوق جہاد اور انقلابی روح کارفرما تھی اس کی تسکین کے لیے فکر مودودیؒ اور اقبالؒ کے ساتھ سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کے فیضان کی ضرورت تھی۔ فکرِ مغرب اور تہذیبِ جدید کے پائے چوبیں کا علاج و مداوا مجھے یہاں نظر نہیں آتا، گوشوں اور زاویوں سے آگے مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ۔ اس فکری فرق کے باوجود اپنا دل مولانا کی ذات اور شخصیت کا نخچیر بن چکا تھا۔ محبت و عقیدت سے معمور یہ دل کبھی ان کے سامنے اپنے تعلق خاطر کے اظہار کی جسارت نہ کرسکا۔ وقت گزرتے رہے فکر و نظر میں دوری کے باوجود، میری محبت و عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مولانا روحانی اور قلبی طور پر میرے مخدوم بھی ہیں اور مرشد بھی۔ ان دنوں میرے ذہنی و قلبی مناسبت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ لکھنؤ کے کسی مرکزی مقام پر مولانا کاایک خطاب عام تھا، ہم طلباء بھی سننے گئے۔ تقریر بڑی دل پذیر اور موثر تھی۔ رات کے تقریباً ۱۲بجے جلسہ سے ہوسٹل واپس آئے اور قلم و کاغذ لے کربیٹھ گئے۔ پوری تقریر ’’صورت اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے لکھ ڈالی۔ دوسرے دن حلقہ ادب اسلامی لکھنؤ کی ایک نشست تھی، میں نے وہ مضمون اس میں پڑھا، سبھوں نے پسند کیا۔ ہمارے دوست، م۔نسیم نے مشورہ دیا کہ سہ روزہ اخبار ’’الانصاف‘‘ جو اس زمانہ میں الٰہ آباد سے نکلتا تھا اور تحریک اسلامی کا ترجمان تھا، میں اشاعت کے لیے بھیج دو۔ مضمون اسی دن حوالہ ڈاک کیا جس میں مولانا کی تقریر کا حوالہ نہ تھا۔ مضمون ’’الانصاف‘‘ میں آگیا۔ مولانا نے بھی اپنی اسی تقریر کو’’صورت اور حقیقت‘‘ کے عنوان سے قلم بند فرمایا اور ہفت روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ جو زیر ادارت مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم صدر شعبہ دینیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے نکلتا تھا وہ مضمون اس میں شائع ہوا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں کی اشاعت ایک ساتھ ہوئی۔ مضمون میں الفاظ و معانی کی ایسی مناسب اور یکسانیت تھی جیسے ایک ہی مضمون دو ناموں سے دو جگہ شائع ہوا ہو۔ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے دونوں مضامین کو دو اخبار میں دو ناموں سے ایک ساتھ پڑھا اور اپنے اخبار ’’صدق جدید‘‘ میں بڑی حیرت کا اظہار کیا اور عنوان لگایا کہ کس کا سرقہ ہے؟ ایک مولانا علی میاںؒ کے نام تھا اور دوسر امجھ جیسے گمنام طالب علم کے نام! مجھے اس بات کی بڑی شرمندگی تھی کہ میں نے اپنے اس مضمون میں مولانا کی تقریر کا حوالہ نہ دیا تھا۔ مولانا سے جب ملاقات ہوئی تو بولے مجھے خوشی ہے کہ آپ کو یہ تقریر پسند آئی، میں نے اسے آپ کو دے دی۔ اسی طرح مولانا کے اقبال پر دو عربی مقالوں کا اردو ترجمہ میں نے کیا ’’اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر‘‘ اور ’’انسان کامل: اقبال کی نگاہ میں‘‘ مولانا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ یہ دونوں مضامین مولانا کی کتاب ’’نقوق اقبال‘‘ اور میری کتاب ’’حدیث اقبال‘‘ میں شامل ہیں، اس ترجمہ کو پڑھ کر میرے اکثر احباب کا یہ تاثر تھا کہ اگر مولانا خود اپنے قلم سے اردو میں پیش کرتے تو ایسا ہی ہوتا۔ مولانا کی ذات و شخصیت سے میری اس ذہنی مناسبت اور قلبی تعلق کے باوجود ہماری راہیں جدا تھیں۔ اس زمانہ میں بھی اور بعد میں بھی بہت طلبائے جدید و قدیم مولانا کے توسط سے ذاتی اور مادی فائدے اٹھانے کے لیے مولانا سے چمٹے رہتے۔ ان میں سے اکثر نے مولانا کی ذات و اثرات سے فائدہ اٹھا کر ممالک عربیہ میں بڑے دنیاوی فائدے اور عہدے حاصل کئے۔ میں اپنی درویشی اور کم مائیگی کے باوجود کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کرسکا۔ مولانا کے لیے میرے دل میں جو بے غرض محبت اور دلی اخلاص و عقیدت تھی اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی وہ ویسے ہی باقی ہے۔ اس دوری و مہجوری نے اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔
مولانا کے ذاتی کمالات و صفات، ان کا تقویٰ و عبادت، ان کی پاکیزگی میرے لیے ہمیشہ باعث کشش اور نشان راہ بنی رہی، ساتھ ہی میرا ذوق علم و ادب اور قلب و مزاج کی یکسانیت و مناسبت بھی ان کے قرب کا باعث رہا، خصوصاً علامہ اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری کے سلسلہ میں ہم دونوں اقبال کے شیدائی ہیں، جب بھی مجھ سے ملاقات ہوتی میرے ذوق کی مناسبت سے علامہ اقبال کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر اور ان کی شاعری کے محاسن بیان فرماتے۔ عرب دنیا میں اقبال پر مولانا کی مشہور کتاب ’’روائع اقبال‘‘ اقبال کی شاعری اور فکر و فن کے تعارف کا ذریعہ بنی اور اس کا اردو ترجمہ ’’نقوق اقبال‘‘ اقبالیات میں ایک اضافہ ہوا۔ اردو کے جدید اور معتبر ناقدوں کی زبان میں اردو تنقید میں بھی اس کا ایک مقام ہے۔ ان کے علاوہ مولانا کی دیگر کتابیں اسلامی ادبیات عالیہ میں شمار کئے جانے کے لائق ہیں، خصوصاً ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ مسلمانوں کے عروج و زوال کا انسانی دنیا پر اثر‘‘ مختلف تذکرے اور سوانح ہیں،خاکہ نگاری کا بہترین نمونہ ’’پرانے چراغ‘‘ان کی انشا پردازی کے شاہکار ہیں۔مولانا کی خود نوشت سوانح عمری ’’کاروان زندگی‘‘ آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہی ہے۔ اس میں ان کے سفر کے احوال، خطبے اور تقاریر کے اہم اور قابل قدر حصے آگئے ہیں۔ یہ خود نوشت بجائے خود ادب و انشاء کا مرقع ہے، عام طور پر ہمارے یہاں علمائے دین کی قدر و قیمت ان کی دینی حیثیت اور مذہبی تصانیف سے ہوتی ہے، حالانکہ ان کی نگارشات کی ادبی حیثیت و وقعت بھی مسلم ہے، مثلاً علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ’’سیرت النبیؐ‘‘ او سیرت نبوی پر ’’خطبات مدراس‘‘ جہاں سیرت پر اردو عربی کے ذخیروں میں بے مثال ہے، وہیں وہ اپنی ادبی حیثیت اور انشاء پردازی میں بھی لازوال ہے۔ اسی طرح مولانا علی میاںؒ کی ساری تصنیفات خواہ ان کا موضوع کچھ بھی ہو اپنی معنوی گہرائی و گیرائی کے ساتھ اپنی ادبی اہمیت بھی رکھتی ہیں اور ان کا ادبی جمال اور حسن انشاء اردو ادب میں اعلیٰ معیار کا نمونہ ہے جس کا اعتراف پروفیسر رشید احمد صدیقی سے لے کر شمس الرحمن فاروقی جیسے جدید ناقدین تک نے کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی علمی و دینی کارناموں کی حیثیت کا اعتراف تو سارا عالم اسلام کر رہا ہے جس کا ثبوت فیصل ایوارڈ اور حکومت دبئی کا گراں قدر ایوارڈ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا کی ادبی حیثیت کا اظہار، عالمی سطح پر رابطہ ادب اسلامی کے قیام سے ہوتا ہے جس کے مولانا موصوف ہمیشہ بانی صدر رہے۔ مولانا نے اس ادارہ کے ذریعہ ادب اسلامی کا وزن و وقار عالمی سطح پر ہر مکتب فکر کے جدید و قدیم عالموں، ادیبوں اور دانشوروں سے منوا لیا ہے۔ ایک عالم، دانشور، ادیب اور ناقد کی حیثیت سے دیکھا جائے تو مولانا ادب اسلامی کے نابغۂ روزگار تھے اور بلاشبہ جن کی ہمہ جہت، ہشت پہلو شخصیت کا معترف آج بر صغیر ہند کے ساتھ سارا عالم اسلام ہے۔
آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
0 comments:
Post a Comment