عبد
القوی دسنوی کی بے مثال تحریریں
یوم
پیدائش پر گوگل کا ڈوڈ ل بناکر خراج عقیدت
(بہ شکریہ گوگل
گوگل نے آج اپنے ڈوڈل سے اردو کہ مایہ ناز ادیب عبد القوی دسنوی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اردو دنیا آ،ج عبد القوی دسنوی کا 87 واں یوم پیدائش منا رہی ہے۔ عبد القوی دسنوی کی پیدائش ۱۹۳۰ میں بہار کے دسنہ میں ہوئی اور7 جولائی 2011 کوان کا انتقال ہوا۔ پانچ دہائیوں میں دسنوی نے اردو ادب کی کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے غالب ، اقبال، حسرت موہانی اور ابو الکلام آزاد پر بھرپور کام کیا۔ آپ کا تعلق سید سلیمان ندوی کے خاندان سے تھا۔
پریم چند پر آپ کی
کتاب مکتبہ جامعہ نے شائع کی جو کافی مقبول ہوئی۔آپ بھوپال میں شعبۂ اردو سے
وابستہ رہے اور پوری زندگی تدریس و ادب کی خدمت میں گزاری۔ گوگل نے عبدالقوی
دسنوی کو خراج عقیدت پیش کرکے اردو کی ایک بڑی خدمت انجام دی ہے اور ہندوستانیوں
کو ایک مایہ ناز ادیب و ناقد کی یاد دلائی ہے۔ بے شک یہ ایک مستحسن قدم ہے۔
آئینہ عبد القوی
دسنوی کی تحریروں کے چند اقتباسات پیش کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔
''دسنہ لائبریری نے
کتاب پڑھنے اور خریدنے کا شوق پیدا کیا تھا تو میں نے اسی بچپن میں سونے کے انڈے دینے
والی مرغی کی کہانی زندگی میں پہلی کتاب ایک دھیلے میں خریدی تھی جسے نہایت احتیاط
سے کاغذ چڑھا کر محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ اسے کئی بار مطالعہ کیا تھا اور ہر
بار اس احمق پر ہنسی آئی تھی جس نے سارے انڈے ایک دن حاصل کرنے کی لالچ میں اس کا
پیٹ پھاڑ دیا تھا اور آنے والی دولت سے محروم ہوگیا تھا۔"
اپنی بستی کے لوگوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:
''اور یہ بھی سچ ہے
کہ اس بستی کے رہنے والوں کی آپس میں
محبت ، ایک دوسرے کے لئے احترام، ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کی کوششیں، ایک دوسرے کے
ساتھ ہر معاملے میں تعاون، ایک دوسرے کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھنے کا جذبہ،
ایک دوسرے کی خوشیوں کو اپنی خوشی جاننے کا تصور، ایک دوسرے کےغم دکھ درد کو اپنا درد محسوس کرنے کا اور ایک دوسرے کے لئے مٹ جانے کی تڑپ آج
بھی میرے دل میں ایک عجیب اضطراب پیدا کردیتی ہے۔ اور اس انسان پرور فضا میں لوٹ
جانے کی خواہش کو جھنجوڑ دیتی ہے۔ بار بار
آج سوچتا ہوں کہ دسنہ کے وہ لوگ کتنے اچھے تھے جودوسروں کی پر مسرت زندگی میں اپنی
زندگی کی تسکین کا سامان پاتے تھے اور کتنے برے اور انسانیت کے نام پر داغ ہیں وہ
لوگ جو اپنی پستی فکر کا زہر دوسروں کی پرسکون زندگی میں گھول کر اس کا سکون اور
طمانیت چھین لیتے ہیں اور اپنی تخریبی صلاحیت پر نازاں رہتے ہیں۔"
(جاری)
0 comments:
Post a Comment