غزل
کامل القادری
ابر گھر آتا ہے جب رازِچمن کھلتا ہے
برق لہراتی ہے غنچے کا دہن کھلتا ہے
اب بھی ہے کوئی سر بزم غزل خواں اے دوست
لب وابستہ بہ زنجیر کہن کھلتا ہے
برق خاطف سے کہو چشم عنایت ہو ادھر
پھول جھڑتے ہیں لب سوختہ تن کھلتا ہے
آبلہ پائی کا یاروں کو صلہ مل ہی گیا
نقش پا ہم صفت رنگ چمن کھلتا ہے
صورت دوست وہ پہلو سے لگے بیٹھے ہیں
کون دشمن ہے یہاں اہل وطن کھلتا ہے
بے خبر تھے تو زمانے کی خبر رکھتے تھے
اب تو خود پر بھی کہاں اپنا چلن کھلتا ہے
نالہ کرتا ہوں تو ہنس پڑتے ہیں غنچے کامل
مسکراتا ہوں تو بلبل کا دہن کھلتا ہے
0 comments:
Post a Comment