خِلال
وسیم چشتی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں کلّو نام کا ایک کسان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے نئے داروغہ صاحب کی جو نئے نئے شہر سے آئے تھے، دعوت کرنی چاہی۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ دیکھ وہ شہر کے رہنے والے ہیں ان کی دعوت نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تم سے کوئی بات ایسی ہو جائے جو ان کو ناگوار گزرے۔ لیکن اس کسان نے کسی کی کوئی بات نہ سنی اور اس نے داروغہ صاحب کو دعوت پر مدعو کیا اور بیوی کو ہدایت کردی کہ خوب اچھے اچھے کھانے تیار کرے۔ داروغہ صاحب جب آئے اور کھانا کھا چکے تو انھوں نے ایک خِلال مانگا۔ کسان نے سمجھا یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ گھر میں گیا اور بیوی سے کہا۔ تم نے خلال پکایا ہے، جلدی سے دو داروغہ صاحب مانگ رہے ہیں۔ کسان کی بیوی نے کہا میں نے یہ چیز تو نہیں پکائی ہے۔ یہ سنتے ہی کسان اپنی بیوی پر بہت ناراض ہوا اور اس نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ سب چیزیں پکا کر رکھنا۔ وہ باہر آیا اور داروغہ صاحب کے سامنے کھڑا ہوکر عاجزی سے کہنے لگا”داروغہ صاحب خِلال تو ہمارے یہاں پکا نہیں ہے۔“ یہ سنتے ہی داروغہ صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کافی دیر تک ہنستے رہے۔جب ان کی ہنسی رکی تو وہ بولے ارے بھائی خِلال کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے وہ تو دانت کریدنے کے تنکے کو کہتے ہیں ۔ یہ سن کر کسان بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے داروغہ صاحب کی فرمائش کو فوراً پورا کردیا۔
(بہ شکریہ آج کل)
ہماری گھریلو زبان سے کچھ الفاظ رفتہ رفتہ متروک ہوتے جارہے ہیں۔ اس کہانی کا مقصد اپنے بچوّں کو ان چھوٹی چھوٹی
چیزوں سے روشناس کرانا ہے۔
چیزوں سے روشناس کرانا ہے۔
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ |
0 comments:
Post a Comment