آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 15 September 2018

Yeh Hai Kolkata Meri Jaan!

صحبہ عثمانی
جنوری کی ایک خوبصورت شام تھی اور ہم سب دھنباد سے کولکتہ جانے والی ٹرین پر سوار تھے۔ ہم سب نے دہلی میں جاڑے کی چھٹیوں میں کولکتہ جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ میرے پاپا نے اپنے بڑے بھائی جنہیں میں ابو بلاتی ہوں کے ساتھ کولکتہ گھومنے کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ وہ جمشید پور سے اپنی فیملی کے ساتھ کولکتہ کے لیے روانہ ہو چکے تھے اور ہم سب بھی کولکتہ کے راستے میں تھے۔ ان کی ٹرین ہماری ٹرین سے ایک گھنٹے پہلے پہنچنے والی تھی اور وہ لوگ اسٹیشن پر ہی ہم سب کا انتظار کرنے والے تھے۔ کولکتہ پہنچنے کا وقت جیسے جیسے نزدیک آرہا تھا ہمارا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ ابو ہوڑہ اسٹیشن پہنچ چکے تھے اور اب ان کا فون آرہا تھا کہ ہم کتنی دور ہیں۔ہمیں بھی اب دور سے جھلملاتی روشنیاں نظر آنے لگیں تھیں۔ رات کے ساڑھے نو بج چکے تھے اور ہم سب رات کے اندھیرے میں ہی کولکتہ کو اچھی طرح دیکھ لینا چاہتے تھے۔ کسی بھی عام شہر کی طرح وہاں بھی ریلوے لائن کے کنارے پرانی عمارتیں نظر آنے لگی تھیں۔ دیواروں پر بنگلہ میں لکھے اشتہارات جنہیں ہم صرف تصویر سے پہچان سکتے تھے نظر آنے لگے تھے کہ اچانک پاپا نے بتایا دیکھو ہوڑہ برج کا ایک حصّہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہم نے ٹرین کے اندر سے ہی اسٹیل کے اونچے اونچے جالی دار ستون دیکھے۔ ایسا لگا جیسے پوارا کولکتہ ہی ہماری آنکھوں کے سامنے آگیا ہو۔ ٹرین اب آہستہ آہستہ ہوڑہ اسٹیشن میں داخل ہو رہی تھی۔
شہر کولکتہ کے ریلوے اسٹیشن کا نام ہوڑہ جنکشن ہے۔ یہ اسٹیشن 1854 میں عام لوگوں کے لیے کھولا گیا۔ہگلی ندی پر بنا مشہور ہوڑہ برج اس کے قریب ہی واقع ہے۔یہ پُل ہوڑہ اور کولکتہ دو شہروں کو جوڑتا ہے۔یہ پُل 1936 میں بننا شروع ہوا اور 1942 میں مکمل ہو31 فروری1943 کو اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔۔ ابو، سنجھلی امی اور یمنیٰ آپی اسٹیشن پر ہم سب کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہمارے چہرے کھل اٹھے۔ کولکتہ کو قریب سے دیکھنے کا ہمارا خواب اب حقیقت میں بدل چکا تھا۔ ہم سب اسٹیشن پر اترے۔ ابّو کے ساتھ کئی لوگ ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔کولکتہ اسٹیشن کافی اونچا اور بڑا تھا۔ اس اسٹیشن کی خوبی یہ تھی کہ یہاں گاڑی لینے کے لیے آپ کو اسٹیشن کے باہر نہیں جانا تھا بلکہ گاڑیوں کو اندر آپ کے اسٹیشن تک لانے کی سہولت تھی۔ میں نے یہ پہلا اسٹیشن دیکھا جہاں آپ کی کار اسٹیشن پر ہی آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ میں ۵ گھنٹے کا سفر کر کے تھک چکی تھی۔ اسٹیشن کافی لمبا اور صاف ستھرا تھا اور ہم میں مزید پیدل چلنے کی ہمت نہیں تھی۔ہم سب جلدی جلدی دو گاڑیوں میں سوار ہو گئے۔ ہمارا قافلہ ہوٹل کی جانب روانہ ہوگیا۔ ابو نے ناخدا مسجد کے سامنے ہی ہوٹل کا کمرہ بک کرا رکھا تھا۔
CourtesyAaina
ہوگلی ندی میں اسٹیمر سے ہوڑہ برج کی ایک تصویر۔
اسٹیشن سے نکلتے ہی روشنی میں جگمگاتا ہوڑہ برج ہمارا استقبال کر رہا تھا۔ گاڑیوں کی طویل قطار سے جام جیسا منظر تھا۔ لیکن ہم خوش تھے کہ ایک تاریخی پُل کو ہمیں اتنے قریب سے دیر تک دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اب تک تصویروں میں دیکھ کر یہ برج ہمارے آنکھوں میں بس چکا تھا اور اب اتنے قریب سے دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ہمیں ہوڑہ برج دیکھنے کے لیے الگ سے پروگرام نہیں بنانا پڑا تھا اور اب ہم دھیرے دھیرے اس پُل سے گزرنے والے تھے۔ اس پُل کی خوبی یہ ہے اس پُل کے نیچے کوئی ستون نہیں ہے اور یہ پورا پُل معلق ہوا میں ٹنگا ہے۔ اسٹیل کے بڑے بڑے گٹروں نے سارا بوجھ ندی کے کنارے مضبوط ستونوں پر کھینچ رکھا ہے اور اس کے نیچے سے بڑے بڑے جہاز اور اسٹیمر بہ آسانی گزر سکتے ہیں۔ اس پر سے روزانہ تقریباً ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں گزرتی ہیں اورتقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ اسے پیدل پار کرتے ہیں۔اب ہم ہوڑہ برج میں داخل ہو چکے تھے۔ کار کے پچھلے شیشے سے ہماری نگاہیں اس کے لوہے کے اس ستون کی بلندی دیکھنے کو بیتاب تھیں۔ لوہے کے چوڑے چوڑے گٹر ایک دوسرے سے جڑے تھے۔ اسے بنانے والے کاریگروں کا کمال تھا کہ انہوں نے بڑی کامیابی سے اس پُل کو ہوا میں نہ صرف معلق رکھا تھا بلکہ اس پر سے ہزاروں گاڑیوں کا گزرنا بھی ممکن بنایا تھا۔ سڑک بہت زیادہ چوڑی نہیں تھی۔ اور دونوں جانب سے ٹریفک کا بحال رکھنا ایک مسئلہ تھا۔ لیکن ٹریفک پولس والے بڑی مستعدی سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور گاڑیوں کو ایک ترتیب سے پار کرا رھے تھے۔ بتاتے ہیں کہ کوککتہ کی ٹریفک پولس اپنے اصولوں کی بڑی پکّی ہے۔ اور ٹریفک ضابطوں کی ان دیکھی کرنے پر سخت جرمانہ کرتی ہے۔ لہذا گاڑی چلانے والے اس سلسلہ میں بہت محتاط رہتے ہیں اور کوئی بھی اپنا چالان کٹوانا نہیں چاہتا۔ ہماری گاڑی ہوڑہ برج سے گزر چکی تھی۔برج کے بلند ستون دور سے چھوٹے ہوتے ہوتے اب ہماری نظروں سے اوجھل ہورہے تھے۔ ہم نے کولکتہ کی سب سے اہم یادگار کا دیدار کر لیا تھا۔
ناخدا مسجد کا صدر دروازہ
اب ہم اپنے ہوٹل کے قریب پہنچنے والے تھے۔دونوں جانب دوکانیں کھلی تھیں۔ ہماری گاڑی روشنی میں جگمگاتے بازار سے گزرتے ہوئے اپنے ہوٹل تک پہنچنے والی تھی کہ بیچ سڑک پر ریلوے کی پٹری نظر آنے لگی۔ معلوم ہوا اس پر ٹرام چلتا ہے۔ ٹرام کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا اور اسے بھی دیکھنے کا شوق تھا۔ لیکن اس وقت کوئی ٹرام نظر نہیں آیا۔ ہم تقریباً اپنی منزل تک پہنچ چکے تھے اور سامنے ناخدا مسجد نظر آرہی تھی۔ ہماری گاڑی ناخدا مسجد کے دروازے پر جاکر رک گئی۔

ناخدا مسجد کے صدر دروازہ پر نصب کتبہ۔(تصویر آئینہ)
مین گیٹ کے سامنے ہی ہمارا ہوٹل تھا جہاں گیٹ کے سامنے ہی دوسری منزل پر ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ کاؤنٹر پر ضروری خانہ پری کے بعد ہم سب اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔کولکتہ جہاں اپنے سیاحتی و تاریخی مقامات کے لیے مشہور ہے وہیں خورد و نوش کے معاملے میں بھی اس کا جواب نہیں۔ یہاں غریب سے غریب اور امیر سے امیر آدمی بھی اپنے غذائی تعیش کی تسکین کر سکتا ہے۔ ایک عام انسان بھی اچھے کھانے پینے اور آسائش کا لطف اٹھا سکتا ہے۔کھانے کی خواہش نہیں تھی لیکن ہمارے میزبان دسترخوان سجا چکے تھے۔ یہ ایک بڑا ہال تھا اور اس سے ملحق ایک کمرہ تھا۔ کمرے میں میری امی، سنجھلی امی اور میری بڑی بہنوں اسرا، یمنی اور چھوٹی بہن اقصیٰ کے رہنے کا نظم تھا اور ہاں یاد آیا ان سب کے ساتھ ہماری پھوپھی زاد بہن عریشہ آپی بھی تھیں۔ان کے کھلکھلاتے قہقہوں کو میں اب تک کیسے بھولی بیٹھی تھی۔ شاید میں کولکتہ کے ذکر میں کھو گئی تھی۔اُف یہ کولکتہ۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ دسترخوان سج چکا تھا۔آپ کولکتہ جائیں اور ناخدا مسجد کے پاس ٹھہریں اور کباب پراٹھا نہ کھائیں تو آپ سے بڑا بد ذوق اور کوئی نہیں۔ یہاں کباب اور پراٹھے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ کولکتہ میں دو ہی چیزیں مشہور ہیں ایک روئل کی بریانی اور ناخدا کے کباب پراٹھے۔ اور ہاں جاڑوں میں حلیم کا بھی جواب نہیں۔گرمیوں میں ٹیپو سلطان کی مسجد کے قریب ملنے والے فالودے بھی کافی لذیذ ہوتے ہیں۔ اب بڑے بڑے مال کھل چکے ہیں جس کا ذکر بعد میں آئے گا وہاں مغربی اور چائینیز ڈشوں کی بھرمار ہے لیکن لوگ ابھی بھی روائتی ڈشوں کے دیوانےہیں۔

کھانے کے بعد ہم اپنے بستروں پر سونے کے لیے چلے گئے۔ نیند آنکھوں سے دور تھی آنکھ بند کرتے ہی سامنے عالیشان ہوڑہ برج آنکھوں کے سامنے آجاتا اور میں ان مزدوروں اور انجینیروں کے بارے میں سوچنے لگتی جنہوں نے اس کی تعمیر میں حصّہ لیا تھا۔ انگریز بھی ہمارے ملک میں کیسے کیسے کارنامے انجام دے گئے۔پاپا اور ابو دوسرے دن گھومنے کا پروگرام ترتیب دے رہے تھے اور میں آہستہ آہستہ نیند کی آغوش میں جا رہی تھی۔

3 comments:

  1. Masha Allah Bahut khoob safar ki rodad, Sehba. Apne Papa ki tarah bahut acha likti ho beti. All the Best! Tariq Siddiqui

    ReplyDelete
  2. ماشاءاللہ کافی اچھا سفر نامہ

    ReplyDelete

خوش خبری