آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 17 February 2019

Chacha Kababi - NCERT Solutions Class VIII Urdu

چچا کبابی دلّی والے
ملا واحدی
Courtesy NCERT

جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دکان دار نہیں بیٹھتا تھا، شام کے پانچ چھے بجےایک کبابی صاحب دکان لگایا کرتے تھے اور رات کے بارہ ایک بجے تک کباب بیچتے تھے۔ ان کا نام مجھے معلوم نہیں۔ چچا کبابی کہلاتے تھے۔
چچا کبابی غدر 1857 کے دس بارہ سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے اور 1947 سے چند سال قبل انتقال کر گئے ۔ دلّی کے سیخ کے کباب اور گولے کے کباب مشہور ہیں۔ چچا کبابی دلّی کے ممتاز کبابی تھے۔ کباب بنانے کے اعتبار سے بھی اور انوکھی طبیعت کے اعتبار سے بھی۔ کباب بنانے کے کمال پر انھیں بڑا گھمنڈ تھا؛ اور طبیعت کا انوکھا پن تو اس سے عیاں ہے کہ اپنے لیے وہ جگہ انتخاب کی تھی جہاں گا ہک کو آنا ہو تو جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی طرف کے دسیوں کبابیوں کو چھوڑ کر آئے ۔ ایک گیارہ برس کی لڑکی آگ کا تاؤ رکھنے کی غرض سے ہر وقت پنکھا ہاتھ میں پکڑے کھڑی رہتی تھی۔ غالباً ان کی بیٹی تھی ۔ ذرا تاؤ کم و بیش ہوا چچا کبابی کا پارہ چڑھا۔ غصہ ناک پر رکھا رہتا تھا، لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔
گاہکوں کو باری باری کر کے کباب دیتے تھے۔ اگر آپ ان کے ہاں اول مرتبہ تشریف لائے ہیں اور ان کی طبیعت سے واقف نہیں ہیں، اور دوسرے گاہکوں کی نسبت آپ کی حیثیت بلند ہے، صاف ستھرا پہنتے ہیں ، تانگہ یا موٹر روک کر کباب خریدنے اتر پڑے ہیں، آپ نے خیال کیا کہ مجھے ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہاتھ بڑھایا، روپے تھمائے اور فرمایا۔ ڈیڑھ روپے کے کباب ذرا جلدی ۔‘ جلدی کا لفظ سنتے ہی چھا کہانی کا مزاج بگڑ جائے گا۔ وہ روپے واپس کر دیں گے اور کہیں گے۔ ”حضور ! جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔“
ایک روز ایک ذرا زندہ دل سے شخص چچا کبابی سے الجھ گئے ۔ انھوں نےچچا کبابی کے اس فقرے پر فقرہ جڑ دیا کہ ”بھائی ! اور سے ہی لے لیں گے، اللہ نے تمھارے کبابوں سے بچایا نہ جانے ہضم ہوتے یا کوئی آفت ڈھاتے۔“ چچا کبابی تلملا اٹھے۔ کہنے لگے ۔ ”حضور! کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گھل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف بہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے، جو پہلےآیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔“
چچا کبابی دھونس نہیں برداشت کرتے تھے اور اپنے اصول کے مقابلے میں تعلقات کو بھول جاتے تھے۔ عزیز اور دوست بھی ان سے بغیر باری کے کباب نہیں لے سکتے تھے۔ آپ جائے، ان کو سلام کیجیے۔ جواب دیں گے، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ پانوں کی ڈبیہ سامنے رکھ دیجیے۔ بے تکّلف پان کھالیں گے۔ زردہ خود مانگیں گے لیکن نامکن ہے کہ سلام یا پان سے چچا کہانی پگھل جائیں ۔ کباب باری پر ہی دیں گے۔

ایک دفعہ میری موجودگی میں تیرہ چودہ برس کا ایک لڑکا آیا اور بولا:
”چار پیسے کے کباب دے دو“ چچا کبابی نے کہا ”نہیں بھائی میں تجھے کباب نہیں دوں گا۔“
اب وہ لڑ کا سر ہو رہا ہے اور خوشامدیں کر رہا ہے اور چچا کبابی انکار پر انکار کیے جاتے ہیں۔ جب بہت دیر اس حجت بازی میں گزر گئی تو کسی نے ہمت کر کے پوچھ لیا۔ ”چچا، کیا بات ہے۔ اسے کباب کیوں نہیں دے رہے؟‘‘
کہنے لگے ” میاں! یہ پیسے چرا کر لاتا ہے۔ گھر سے لاتا ہو یا کہیں اور سے ، روز چار پیسے کے کباب کھا جاتا ہے۔ یہیں بیٹھ کر دیکھو نا! اس کی صورت ۔ جا بیٹا جا۔ عادت کہیں اور جا کر بگاڑ میں تجھے چار پیسے کی خاطر تباہی کے راستے پر نہیں لگاؤں گا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ تیرے ماں باپ چار پیسے روز تجھے کباب کھانے کے واسطے دیتے ہوں گے۔“
جو لوگ ان کی دکان پر تازے اور گرم گرم کباب کھا لیتے تھے، ان سے خوش ہوتے تھے۔ پیسے تھما یئے اوربتا دیجیے کہ اوپر جامع مسجد کے دالان میں انتظار کر رہا ہوں ۔ کباب بھیج دینا یا آواز دےدینا۔ ایسے لوگوں کے کباب گھی سے بگھارتے ، کبابوں میں بھیجا ملاتے۔ پیاز، پودینہ اور ہری مرچیں چھڑ کتے اور اپنے آدمی کے ہاتھ بھجوا دیتے ۔ اللہ بخشے مولانا راشد الخیری کو چچا کبابی کے ہاتھ کے کباب بے حد مرغوب تھے۔ وہ میرے ساتھ ہوتے تو میں بھی جامع مسجد چلا جاتا اور وہیں کباب منگا لیتا تھا۔ تازے کبابوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔


سوچیے اور بتائیے
1. چچا کبابی اپنی دوکان کہاں لگایا کرتے تھے؟
جواب: چچا کبابی جامع مسجد کے پھُلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دوکاندار نہیں بیٹھتا تھا اپنی دوکان لگایا کرتے تھے۔

2. چچا کبابی کی شخصیت کی کا خوبیاں تھیں؟
جواب: چچا کبابی کو کباب بنانے میں کمال حاصل تھا۔ وہ غصہ ور شخصیت کے مالک تھے لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل جائے۔

3. چچا کبابی اپنے گاہکوں کو کباب دینے کے لیے کیا طریقہ اپناتے تھے؟
جواب: چچا کبابی اپنے گاہکوں کوباری باری کباب دیا کرتے تھے۔اور اگر کوئی جلدی کرتا تو ان کا پارہ چڑھ جاتا اور وہ اس سے کہتے کہ جو پہلے آیا ہے اسے پہلے کباب ملے گا اورحضور جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجیے۔

4. چچا کبابی نے زندہ دل شخص کو کیا جواب دیا؟
جواب: چچا کبابی نے زندہ دل شخص  سے کہا'' حضور کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گل کر گر پڑے۔ میرے کبابوں سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا، لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچّے رہ جاتے ہیں یاجل جاتے ہیں۔ اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے،جو پہلے آیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔"

5. چچا کبابی نے بچّے کو کباب دینے سے انکار کیوں کیا؟
جواب: چچاکبابی نے بچّے کو کباب دینے سے اس لیے انکار کردیا کہ وہ بچّہ کباب کے لیے پیسے چراکر لاتا تھا۔ اور چچا کبابی نہیں چاہتے تھے کہ اسے چوری کی عادت لگ جائے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
عیاں(ظاہر): اس کا درد اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔
انتخاب(چننا): غزلوں کا اشاعت کے لیے انتخاب  کیا گیا۔
مجال(ہمت): کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ چچا کبابی سے جلدی کباب مانگ لے۔
ترجیح: چچا کبابی کباب دینے کے لیے پہلے آنے والے کو ترجیح دیتے۔
تباہی(بربادی): جنگ سے تباہی ہوتی ہے۔
مرغوب: کباب دلی والوں کی مرغوب غذا ہے۔
حجّت(بحث): حجّت کرنا چچا کبابی کی عادت تھی۔
تلملانا(تڑپنا): چچا کبابی غصّے سے تلملا گئے۔

کلک برائے دیگر اسباق

5 comments:

خوش خبری