آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday, 13 February 2019

Gandhi Ji - NCERT Solutions Class VI Urdu

گاندھی جی
حامد اللہ افسر
سنہ انیس سو اکیس (1921) کا ذکر ہے میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا۔ گاندھی جی میرے وطن میرٹھ میں تشریف لائے۔ مجھے ان سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ آخر میری آرزو بر آئ اور مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہو نے کا موقع مل گیا۔ باتیں کرتے کرتے گاندھی جی نے میری اچکن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”دیسی کیوں نہیں پہنتے؟“
میں نے عرض کیا: ”تین چار دیسی چیزیں میں مستقل طور پر استعمال کرتا ہوں دیسی آم کھاتا ہوں ، دیسی پان کھاتا ہوں، دیسی آلو کھاتا ہوں اور دیسی شکر استعمال کرتا ہوں ، کیا یہ کافی نہیں؟“
گاندھی جی نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا اور فرمایا :” تب تو آپ کے لیے دیسی کپڑا پہننا اور بھی آسان ہے، ایک ہی دیسی  چیز کا تو اور اضافہ ہوگا۔“
اس کے بعد متعدد بار، کئی کئی برس  کے وقفے سے مجھے گاندھی جی کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا مگر حیرت ہے کہ ہر مرتبہ مجھے  دیکھتے ہی انھیں میری چار دیسی  چیزوں میں اپنی اسی پانچویں چیز کا خیال آ جاتا۔
انیس سو پینتالیس (1945) کا زمانہ تھا ۔ گاندهی جی مسوری پہاڑ پر بِرلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میں بھی اس سال مسوری گیا ہوا تھا اور گاندھی جی کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوتا رہتا تھا۔
مسوری میں ان دنوں بہت سے لداخی مزدور آئے ہوئے تھے۔ لداخ کشمیر میں ایک جگہ ہے، یہاں کے رہنے والوں کو لداخی کہتے ہیں ۔ وہ ہر سال گرمی کے موسم میں کام کی تلاش میں مسوری اور دوسرے مقامات پر آ جاتے ہیں۔ یہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ بے چارے بہت غریب تھے۔ ایک پھٹے ہوئے جانگئیے اور پیوند لگے ہوئے شلوکے کے سوا ان کے بدن پر کچھ نہ ہوتا تھا۔ رات کے وقت ٹاٹ کے بورے میں لپٹ جاتے تھے۔ یہی ٹاٹ کا بورا ان کا لحاف تھا اور یہی ان کا گدّا۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر گاندھی جی کو بڑا ترس آیا اور انھوں نے ان کی امداد کے لیے مختلف  تجویزوں پر غور کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں گاندھی جی نے ایک ایسی عمارت کی تعمیر  کی تحریک بھی شروع کی جہاں پر یہ بے چارے پہاڑی مزدور ٹھہر سکیں اور اُن سے اُس کا کرایہ نہ لیا جاۓ۔  شاید اس عمارت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے کے وعدے بھی ہو گئے تھے۔
ایک دن میں بیٹھا ہوا تھا کہ یہ ذکر چلا کہ اُس عمارت کا نام کیا رکھا جائے؟  کئی نام تجویز ہوئے، مگر گاندھی جی کو کوئی نام بھی پسند نہ آیا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ اُسے دھرم شالہ کہا جائے۔
میں نے عرض کیا : ”اُس عمارت کا نام آپ ’غریب خانہ‘ کیوں نہیں رکھتے؟“
 ایک اور صاحب وہاں بیٹھے ہوئے تھے بولے : ”’غریب خانہ‘ تو شاید اپنے ہی گھر کو کہتے ہیں؟“
میں نے کہا: ”جی ہاں، کہتے تو ہیں، لیکن اپنے گھر کوغریب خانہ محض انکساری کی وجہ سے کہتے ہیں ۔ خود کو غریب فرض کر لیتے ہیں اور اپنے گھر کو غریب خانہ قرار دیتے ہیں ، ورنہ 'غریب خانہ' کے معنی غریب کے گھر کے سوا اور کُچھ نہیں۔ “
گاندھی جی کو یہ نام پسند آیا۔ اس کے بعد مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ عمارت بنی بھی  یانہیں اور اُس کا نام "غریب خانہ‘‘ رکھا گیا یانہیں ۔
گاندھی جی بھی جھوٹ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ستیہ گرہ آشرم میں ایک نیک چلنی اور سچائی کے قواعد بڑے سخت تھے۔ یہاں تک کہ بچّوں کو بھی اُن  کی پابندی کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ ایک نوجوان آشرم میں رہنے کے لیے آئے۔ یہ بی اے پاس کر چکے تھے۔ دستور کے مطابق گاندھی جی نے اُن کے  سپرد یہ کام کیا کہ تین مہینے تک وہ آشرم میں روزانہ جھاڑو دیا کریں۔
اُس نوجوان کو بچّوں سے بڑا اُنس تھا اور بچّے بھی اُس سے بہت مانوس تھے۔ ایک دن آشرم کی ایک آٹھ سالہ لڑکی اُس نوجوان سے ایک لیمو چھیننا چاہتی تھی ۔ وہ اُس لڑکی کے ساتھ کھیلنے لگا۔ کھیلتے کھیلتے اُسے تھکا دیا لیکن لیمو نہیں دیا۔  لڑکی تنگ آکر رو پڑی۔ اصل میں یہ لیمو آشرم کے ایک مریض کے واسطے تھا، اُس لڑکی کو کیسے دے دیا جاتا۔ جب لڑکی رونے لگی تو اُس نوجوان کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کرے؟
 آخر اُسے ایک ترکیب سوجھی ۔ اُس نے لیمو ہاتھ میں لے کر زور سے اپناہاتھ ہلایا اور یہ ظاہر کیا کہ جیسے لیمو کو سابر متی ندی میں پھینک دیا ہو، مگر اصل میں ایسا نہیں کیا تھا، بلکہ لیمو اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔ اب لڑکی کا دھیان ندی کی طرف گیا اور کہنے لگی ”میں لیمو کو ندی  سے نکال  لاؤں، کنارے ہی پرتو ہوگا؟“
نوجوان نے جواب دیا ”لیمو ندی میں ڈوب گیا، اب تم اسے نہیں نکال سکتیں۔“ بات آئی گئی ہوئی۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ مریض کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نوجوان نے اپنی جیب سے رومال جو نکالا اس کے ساتھ لیمو بھی جیب سے نکل کر زمین پر گر پڑا۔ لڑکی ہکّا بکّا رہ گئی اور نفرت سے نوجوان کی طرف دیکھ کر بولی: ”اچھا آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا،لیمو آپ نے جیب میں رکھ لیا تھا اور مجھ سے کہہ دیا کہ میں نے ندی میں پھینک دیا۔ آشرم میں رہ کر آپ نے اتنی بری بات کی۔ میں باپو سے کہوں گی کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔“
یہ کہہ کر وہ بھاگی اور سیدھی گاندھی جی کی خدمت میں پہنچی اور ان سے کہہ دیا کہ فلاں آدمی نے اس طرح جھوٹ بولا۔ گاندھی جی نے کہا:”ہم معلوم کریں گے کہ کیا بات ہے اور کیوں انھوں نے جھوٹ بولا؟“
شام کو دعا کے بعد گاندھی جی نے اس نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ”کیا بات تھی؟“اس نے سارا قصہ سنا دیا اور کہا”یہ سب مزاق تھا۔“
گاندھی جی نے مسکرا تے ہوئے اس سے کہا:”دیکھو!آئندہ سے اس بات کا خیال رکھو کہ بچّوں سے مزاق میں بھی جھوٹ نہ بولو۔ “                                                          
سوچیے اور بتائیے
1. گاندھی جی کہاں تشریف لے گئے تھے؟
جواب: گاندھی جی میرٹھ تشریف لے گئے تھے۔

2. گاندھی جی نے اچکن کی طرف اشارہ کرکے کیا فرمایا؟
جواب: گاندھی جی نے اچکن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''دیسی کیہں نہیں پہنتے۔''

3.گاندھی جی نے قہقہہ کیوں لگایا؟
جواب: گاندھی جی نے مصنف کی اس بات پر قہقہہ لگایا کہ وہ چار دیسی چیزیں، دیسی آم، دیسی پان، دیسی آلو اور دیسی شکر استعمال کرتا ہے تو کیا پانچویں چیز دیسی اچکن بھی استعمال کرنا ضروری ہے۔

4. گاندھی جی مسوری میں کس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے؟
جواب: گاندھی جی مسوری پہاڑ پر برلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

5. لداخی مزدور گرمی کے موسم میں مسوری کس لیے آتے ہیں؟
جواب: لداخی مزدور ہر سال کام کی تلاش میں مسوری آجاتے ہیں۔

6.لداخی مزدوروں پر گاندھی جی کو کیوں ترس آیا؟
جواب: لداخی مزدوروں پر گاندھی جی کو اس لیے ترس آیا کہ یہ بے چارے بہت غریب تھے۔ایک ذھٹے ہوئے جانگیے اور پیوند لگے ہوئے شلوکے کے سوا آن کے بدن پر کچھ نہ ہوتا تھا۔رات کے وقت وہ ٹاٹ کے بورے میں لپٹ جاتے۔یہی بورا ان کا لحاف بھی تھا اور ان کا گدا بھی۔

7. ''غریب خانہ" کس کو کہا جاتا ہے؟
جواب: اپنے ہی گھر کو انکساری کی وجہ سے غریب خانہ کہتے ہیں۔

8.ستیہ گرہ آشرم میں کن قواعد کی پابندی ہوتی تھی۔
جواب: ستیہ گرہ آشرم میں نیک چلنی اور سچائی کے قواعد بڑے سخت تھے۔چھوٹے بڑے کب کو اس پر عمل کرنا پڑتا تھا۔

9.بچی کو نوجوان کیا واقعی دھوکہ دینا چاہتا تھا
جواب: نہیں وہ صرف اسے بہلانا چاہتا تھا۔ اور یہ سب محض ایک مذاق تھا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. مجھے ان سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔
2. تین چار دیسی چیزیں۔مستقل طور پر استعمال کرتا ہوں۔
3. گاندھی جے نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا۔
4.مسوری میں ان دنوں بہت سے لداخی مزدور کام کی تلاش میں آئےہوئے تھے۔
5. وہ ہر سال گرمی کے موسم میں کام کی تلاش میں مسوری اور دوسرے مقامات پر آجاتے ہیں۔
6. انھیں اس حالت میں دیکھ کر گاندھی جی کو بڑا ترس آیا۔
7. آخر فیصلہ ہوا کہ اسے غریب خانہ کہا جائے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

1 comment:

خوش خبری