کلیم
آئے بھی اپنی غزل سنا بھی گئے
الاپ
بھی گئے رو بھی گئے رُلا بھی گئے
سوز
و گداز میں ڈوبی ہوئی ایک آواز جو ۷۰ اور
۸۰
کی دہائی میں کُل ہند مشاعروں کی جان ہوا کرتی
تھی آج خاموش ہوگئی۔پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز اس دنیا میں نہیں رہے۔انہوں نے اپنے منفرد
انداز بیان سے اردو شاعری میں میر کے لہجے کو آگے بڑھایا۔اپنی زندگی کے سب سے بڑے
المناک حادثوں کو انہوں نے آفاقی بنا دیا۔ ان کی درد بھری المناک یادیں صرف انہی تک
محدود نہیں رہیں بلکہ ان کے اشعار میں وہ تاریخ کا حصّہ بن گئیں۔ لال قلعہ کے مشاعرہ
میں پڑھے گئے اس شعر
دامن
پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم
قتل کرو ہے کہ کرامات کرو ہو
کو
آج بھی اہل علم یاد کرتے ہیں تو اس کمزور جسم کے ناتواں انسان کےاس شدید شعری احتجاج
کو نہیں بھلا پاتے۔آج بھی یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے۔خود کلیم عاجز کو اس بات کا
احساس تھا کہ یہ تلخ لہجہ اگر غزل کے حسین پیرائے میں قید نہ ہوتا تو قابل گردن زدنی
قرار دیا جاتا۔یہ شعر بلکہ پوری غزل مخاطبِ غزل کے مزاج نازک پر کتنا گراں گزری یہ
تو معلوم نہیں لیکن لال قلعہ کے مشاعروں میں کلیم عاجز کی شرکت ہمیشہ کے لئے ممنوع
قرار پا گئی۔خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور اکیڈمی کے ارباب اقتدار بخوبی اس روایت کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں
بلکہ اسے آگے بھی بڑھا رہے ہیں۔
کلیم
عاجز کی شاعری ہندوستان کے سماجی و سیاسی حالات کا بھرپور منظر نامہ پیش کرتی ہے۔وہ
مناظر و واقعات جو کلیم عاجز کی شاعری کا بنیادی جز بنے وہ آج بھی مختلف شکلوں میں
دہرائےجا رہے ہیں۔کھونے اور لُٹ جانے کا احساس بہتوں کو ستا رہا ہے۔آج بھی لوگوں کے
دل اسی طرح زخموں سے چور ہیں اور ہر درد مند انسان اس کو اپنی زندگی کا ایک حصّہ سمجھتا
ہے ۔یہی سبب ہے کہ قاری ڈاکٹر عاجز کا جب بھی کوئی شعر پڑھتا ہے تو اسے وہ اپنے دل
سے نکلتی ہوئی آواز محسوس کرتا ہے۔اگر اپنے اشعار کی ترسیل میں کلیم عاجز کی انا پسندی
کا دخل نہ ہوتا تو شاید آج وہ ہندوستان کی گلی کوچوں کے سب سے مقبول شاعر ہوتے۔
ایک
زمانہ تھا کہ کلیم عاجز ہندوستانی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔میرے والد حضرت حکیم
شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ جو خود بھی ایک شاعر تھے ڈاکٹر کلیم عاجز سے خصوصی لگاؤتھا۔اس
زمانے میں وہ جب بھی دھنباد تشریف لاتے تو ہمارے گھر ضرور آتے۔والد محترم سے گھنٹوں
ادبی و شعری گفتگو ہوتی اور باتوں ہی باتوں میں ایک شعری نشست ہوجاتی۔مشاعروں میں ایک
ایک شعر کے لئے ناز و انداز دکھانے والے کلیم عاجز اتنی محبت سے شعر پر شعر سناتے کے
ان کی فراخدلی دیکھتے ہی بنتی۔شاید ڈاکٹر کلیم عاجز کو احسا س تھا کے اس محفل میں ان
کے سچے قدرداں موجود ہیں۔ یہی صورت حال میرے خالو سید ناطق قادری اور ماموں طارق قادری کے ساتھ تھی۔نہیں معلوم ان
کے دلوں پر اس سانحہ کے بعد کیا گزری ہوگی۔ کلیم عاجز ان کے لئےمشفق بڑے بھائی اور ہمدم سے کم نہ تھے۔ان کے آبائی گاؤں بمنڈیہہ
جو اورنگ آباد بہار میں واقع ہے وہ اکثر تشریف لاتے۔ تبلیغ کی اہم معمولات کی ادائیگی
کے بعد ادبی گفتگو مشاعرہ میں تبدیل ہوجاتی اور پھر کلیم عاجز کے اشعار اور واہ واہ
کی یلغار کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور پھر موذن ہی اس سلسلہ کو لگام
لگا پاتا۔اس محفل میں کلیم عاجز نعتیں غزلیں
یہاں تک کے گیت بھی سناتےجو کبھی بہار کی ادبی روایت کا ایک حصّہ ہوا کرتی تھیں۔میرے
وطن جھریا میں تو ڈاکٹر کلیم عاجز کے آنے کاسلسلہ تو رفتہ رفتہ کم ہوگیا بلکہ والدماجد
کے انتقال کے بعد بالکل ہی ختم ہوگیا لیکن بمنڈیہہ آنے کا سلسلہ تا حال جاری رہا۔
یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کے یہ شعری نشستیں ان مشاعروں سے بالکل الگ تھیں جو بین الاقوامی
سطح پر عرب ممالک میں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ بعض وجوہات کی سبب انہوں نے ہندوستانی
مشاعروں میں حصّہ لینا بہت پہلے ہی ترک کردیا تھا۔آج ادبی دنیا کی اہم شخصیتیں اردو
مشاعروں کے تہذیبی زوال پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں لیکن کلیم عاجز کے حساس مزاج نے برسوں قبل اس ماحول سےاپنی
ذات کو الگ کرلیا تھا۔انہیں ڈر تھا
کوئی
ناشناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے
گرچہ
یہ موقع شکوہ و شکایت کا نہیں لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سی
وجوہات تھیں جن کی بنا پر جب ان کے عہد کے
دوسرے شعرا مشاعروں میں اپنی دھوم مچارہے تھیں کلیم عاجز نے ان مشاعروں سے خود کو الگ
کرلیا۔آخر کیوں دبستان عظیم آباد کے اس عظیم شاعر نے دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ
سے سجے اسٹیج پر اپنی موجودگی کو اپنی رسوائی کا سبب جانا۔خودداری کا وہ کون سا جذبہ
تھا جس نے مشاعروں کے اسٹیج سے دوری کو ہی اپنے عزت نفس کی تسکین کا ذریعہ جانا۔ گرچہ
اس زمانے میں میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے آج بھی یاد ہے شیر وانی اور چوڑی دار
پاجامے میں ملبوس یہ باریش اور پرنور شخصیت کس طرح جام و مینا میں ڈوبےشاعروں کے لئے
باعث تضحیک ہوتی تھی ۔ان کے سامنے زبان کھولنے کی تو کسی میں ہمت نہ تھی لیکن ان کی
شاعری میں شامل علاقائی لب و لہجہ جو کسی حد تک زبان ِ میر کے قریب ہونے کے باوجودان
کے لئے باعث مزاح ہوتا تھا۔عاجز کا یہ شعر
رکھنا
ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا
ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
ایسے
ہی ’’ناشناس مزاج غم‘‘کی جانب ایک اشارہ ہے۔بہار کے شہر جھریا میں کل ہند مشاعرہ جس کے انعقاد میں والد ماجد کی سرگرم کوششوں کا
بڑا دخل تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس مشاعرہ کے روح رواں تھےاس مشاعرہ میں اس وقت تمام نامور شعرا نے شرکت کی تھی
جن میں علامہ فرقت کاکوروی٬ہلال سیوہاروی٬ملک زاد ہ منظور احمد٬ کنور مہندر سنگھ بیدی
سحر٬ڈاکٹر بشیر بدر٬اور ڈاکٹر کلیم عاجز وغیرہ شامل تھے۔جھریا سے قبل جھارکھنڈ کےگریڈیہ کے مشاعروں میں ان تمام شعرا
نے شرکت کی تھی۔اس مشاعرہ میں کسی بات پر ڈاکٹر کلیم عاجز کی انانیت کو ٹھیس پہنچی
اور اس کے بعد انہوں نے ناظم مشاعرہ اور سجی سنوری شاعرات کو مقابل رکھ کر جو فی البدیہ
غزل سنائی تو سبھی ہکا بکا منہ تکتہ رہ گئے۔یہاں میں نے ہکا بکا کا لفظ بطور خاص استعمال
کیا ہے کہ زبان و بیان کے ٹھیکے دارسادہ الفاظ کی وسعت کو سمجھ سکیں۔مشاعرے میں نوبت
یہ تھی کہ اسٹیج خاموش تھا اور پنڈال واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صداؤں سے گونج رہا
تھا۔
مکمل
غزل ملاحظہ کریں
اس
ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز
ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا
ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا
ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ
گل قیدیٔ زنجیر ہیں اور تم
کیا
ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مئے
میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا
نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم
کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم
کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں
کی تو فطرت ہی ہے لیکن مرے پیارے
زلفوں
سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
وہ
شوخ ستم گر توستم ڈھائے چلے ہے
تم
ہو کہ کلیمؔ اپنی غزل گائے چلو ہو
کلیم
عاجز کی انا کو جو ٹھیس لگی تھی اس کا رنگ جھریا کے مشاعرے تک نظر آیا اور ان پر جملہ
کسنے والی ٹولی ان سے شرمندہ شرمندہ سی رہی۔
کلیم
عاجز ٹوٹے ہوئے دل کے مالک تھے۔اور بہار میں صوفیوں کے سرتاج حضرت مخدوم الملک شیخ
شرف الدین احمد یحیٰ منیری کا کہنا ہے کہ جو دل جتنا ٹوٹا ہوتا ہے اتنا ہی قیمتی ہوتا
ہے۔ اقبال کی زبان میں
جو
شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
عاجز کا دل ایک جانب تو زخموں سے چور تھا دوسری جانب وہ عشق رسول ،محبت الٰہی سے سرشار اور خوف خدا سے بھی پارہ پارہ تھا
عاجز کا دل ایک جانب تو زخموں سے چور تھا دوسری جانب وہ عشق رسول ،محبت الٰہی سے سرشار اور خوف خدا سے بھی پارہ پارہ تھا
دل
کی یہ شکستگی اور خاتم النبی حضرت محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پناہ محبت کلیم عاجز کے نعتیہ اشعار میں جا
بجا نظر آتی ہے۔ ان کی نعت دربار ِ بے کس پناہ میں امت مسلمہ کی حالت زار کا بیان اور ان کی نگاہ لطف کرم اور ظالموں سے نجات کے لئے عرضی ہے۔ کلیم عاجز کی بیشتر نعتیں ہندوستان میں رو نما ہونے والے بدترین فسادات کے بعد کہی گئیں ۔بے سرو سامانی کی حالت میں کلیم عاجز کے لئےیہی ایک دربار ہے جہاں وہ اپنا حال دل بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔ مراد آباد میں عید کے دن ہونے والے فسادات سےمتاثرہوکر یہ نعت کہی۔اس نعت کے چند اشعار یہاں آپ کی نذر ہیں جس میں ان کے دل میں اپنی
قوم کے درد اورظالموں سےپناہ کی خواہش صاف نظر آتی ہے
مدینہ پہونچ کر سرِعام کہیو
صبا
کملی والے سے پیغام کہیو
طبیعت
اندھیروں سے اکتا گئی ہے
بہت
دن سے ہے شام ہی شام کہیو
خزاں بھی گذاری بہاریں بھی دیکھیں
ملا کوئی کروٹ نہ آرام کہیو
ہمیں پھول بانٹیںہمیں زخم کھائیں
وہ آغاز تھا اور یہ انجام کہیو
وہ خود ہی نہ دریافت فرمائیں جب تک
تخلص نہ ان سے مرا نام کہیو
خزاں بھی گذاری بہاریں بھی دیکھیں
ملا کوئی کروٹ نہ آرام کہیو
ہمیں پھول بانٹیںہمیں زخم کھائیں
وہ آغاز تھا اور یہ انجام کہیو
وہ خود ہی نہ دریافت فرمائیں جب تک
تخلص نہ ان سے مرا نام کہیو
جس
طرح غالب کی شاعری کا ذکر غالب کی نثر کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک اسی طرح کلیم عاجز کی
شاعری کا تذکرہ ہو اور ان کی نثر کو بھلا دیا جائے ایسا ممکن نہیں۔دراصل کلیم عاجز کی نثر ان کی شاعری کا پیش لفظ ہے۔ ان
کی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا•••‘‘٬ابھی سن لو مجھ سے٬ جب فصل بہاراں آئی تھی٬یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ اورجہاں
خوشبو ہی خوشبو تھی میں الفاظ کی
روانی٬سادگی اور ان کی معنویت نثر میں نظم کا احساس پیدا کرتی ہے۔الفاظ اتنے سادہ اور
مربوط ہیں اور اندازبیان اتنا دل کو چھو جانے
والا ہے کہ آپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔غم جاناں کس طرح غم دوراں بنتا ہے اس کا احساس
بھی نہیں ہوتا ۔ان کی نثر نہ صرف ایک المناک داستان ہے بلکہ تاریخ ہے ان فسادات کی
جو زمانے میں ہندوستان کے لئے ایک عفریت رہی ہے اور اس نے ہندوستان کے ہزاروں افراد
کو اپنا نشانہ بنایا۔کلیم عاجز نے اس غم کو نہ صرف حرز جاں بنایا بلکہ اپنے غم کو دوسرےحساس دلوں کی آواز بھی بنا دیا۔میں
نے کلیم عاجز کی اس نثر کو متعدد بار پڑھنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس حقیقی بیانیے
نے میرے قدم روک دیے میں نے ان وحشت ناک مناظر
سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔شاید مجھ میں ان لمحوں کو جینے کی ہمت نہ تھی۔ کلیم
عاجز ۸۵
برسوں تک ان لمحوں کو سینے سے لگائے کس طرح
گنگناتے رہے یہ انہی کا دل گردہ تھا۔میرا اپنا خیال ہے کہ کلیم عاجز کو پدم شری اور
عزت و شہرت تو ملی لیکن عوام کو ان کی اس قدر کا موقع نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق
تھے۔
تری
مستی کے افسانے رہیں گے
جہاں
گردش میں پیمانے رہیں گے
ابھی کلیم کو کوئی پہچانتا نہیں
یہ اپنے وقت کی گدڑی میں لعل ہیں پیارے
کلیم عاجز کے وہ اشعارجو زمانے سے میری ڈائری کی زینت ہیں ارور آج انکی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئے ہے۔
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے کی کیا بات کرو ہو
عاجز کے جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کے سب راحت و آرام پڑا ہے
عاجز یہ تم نے کیا غزل بے مزا پڑھی
ایک شعر بھی نہیں صفت زلف یار میں
کلیم عاجز کے وہ اشعارجو زمانے سے میری ڈائری کی زینت ہیں ارور آج انکی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئے ہے۔
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے کی کیا بات کرو ہو
عاجز کے جسے چین نہ تھا بستر گل پر
اب چھوڑ کے سب راحت و آرام پڑا ہے
عاجز یہ تم نے کیا غزل بے مزا پڑھی
ایک شعر بھی نہیں صفت زلف یار میں
0 comments:
Post a Comment