ذرّوں کو بھی انسان بنا دو
سیماب اکبر آبادی
سیماب اکبر آبادی
courtesy:NCERT |
اے اہل وطن! جان وطن بن کے دکھا دو
تم خاک کے ذروں کو بھی انسان بنا دو
انسان وہ ہے علم کی جس میں ہو تجلی
حیواں کو بھی علم ملا ہو تو بتا دو
خود بھی پڑھو بنے کے لیے عالم و کامل
اَن پڑھ کوئی مل جائے تو اس کو بھی پڑھا دو
ہو علم تو پھر کیا نہیں امکاں میں تمھارے
تم چاہو تو جنگل کو بھی گلزار بنا دو
کانٹوں کو جہالت کے الگ کاٹ کے پھینکو
تم علم کے پھولوں سے نیا باغ کھلا دو
ہے ملک میں تفریق جہالت کے سبب سے
تم علم کی قوت سے یہ جھگڑا ہی مٹا دو
بے علم کا جینا بھی ہے اک قسم کا مرنا
جیسے تن بے روح، جلا دو کہ دبا دو
سوچیے اور بتائیے
1.وطن کے لوگ جانِ وطن کیسے بن سکتے ہیں؟
جواب: وطن کے لوگ علم حاصل کر اور اسے بانٹ کے جانِ وطن بن سکتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ تم لوگوں کو علم سکھاؤ۔ اور اگر تم نے ان ذرّوں کو آفتاب بنا دیا تو تم جانِ وطن بن جاؤ گے۔
2.شاعر کے نزدیک انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے؟
جواب: شاعر کے مطابق انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان علم حاصل کرتا ہے جب کہ حیوانوں کے پاس علم نام کی کوئی چیز نہیں۔
3.علم حاصل کرکے کیا کیا کام کیے جا سکتے ہیں؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ انسان علم حاصل کرلے تو وہ جنگلوں کو بھی گلزار بنا سکتا ہے، کانٹوں کے جہالت کو اکھاڑ پھینک سکتا ہے، علم کے پھولوں سے ایک نیا باغ کھلا سکتا ہے اور ملک سے جہالت کو دور کرکے آپسی تفریق کو مٹا سکتا ہے۔
4.کانٹوں اور پھولوں سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب: کانٹوں سے شاعر کی مراد جہالت اور پھولوں سے شاعر کی مراد علم ہے۔
5.جہالت کی وجہ سے ملک کو کیا نقصان ہوتا ہے؟
جواب: جہالت کی وجہ سے ملک میں فرقہ پرستی پھیلتی ہے اور آپسی تفریق کی وجہ سے ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
6.علم کی قوت ملک کی تعمیر و ترقی میں کیسے مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
جواب: علم سے جہالت کے سبب ہونے والی تفریق کا خاتمہ ہوتا ہے اور سب مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
7.آخری شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بے علم کی زندگی ایک لاش کی مانند ہے چاہے تم اسے جلا دو یا دفن کردو۔ یعنی بے علم کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
1.وطن کے لوگ جانِ وطن کیسے بن سکتے ہیں؟
جواب: وطن کے لوگ علم حاصل کر اور اسے بانٹ کے جانِ وطن بن سکتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ تم لوگوں کو علم سکھاؤ۔ اور اگر تم نے ان ذرّوں کو آفتاب بنا دیا تو تم جانِ وطن بن جاؤ گے۔
2.شاعر کے نزدیک انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے؟
جواب: شاعر کے مطابق انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان علم حاصل کرتا ہے جب کہ حیوانوں کے پاس علم نام کی کوئی چیز نہیں۔
3.علم حاصل کرکے کیا کیا کام کیے جا سکتے ہیں؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ انسان علم حاصل کرلے تو وہ جنگلوں کو بھی گلزار بنا سکتا ہے، کانٹوں کے جہالت کو اکھاڑ پھینک سکتا ہے، علم کے پھولوں سے ایک نیا باغ کھلا سکتا ہے اور ملک سے جہالت کو دور کرکے آپسی تفریق کو مٹا سکتا ہے۔
4.کانٹوں اور پھولوں سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب: کانٹوں سے شاعر کی مراد جہالت اور پھولوں سے شاعر کی مراد علم ہے۔
5.جہالت کی وجہ سے ملک کو کیا نقصان ہوتا ہے؟
جواب: جہالت کی وجہ سے ملک میں فرقہ پرستی پھیلتی ہے اور آپسی تفریق کی وجہ سے ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
6.علم کی قوت ملک کی تعمیر و ترقی میں کیسے مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
جواب: علم سے جہالت کے سبب ہونے والی تفریق کا خاتمہ ہوتا ہے اور سب مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
7.آخری شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بے علم کی زندگی ایک لاش کی مانند ہے چاہے تم اسے جلا دو یا دفن کردو۔ یعنی بے علم کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
نیچے دیےہوئے الفاظ کو جملوں میں استعمال
علم | : | علم ایک دولت ہے۔ |
تجلّی | : | علم کی تجلّی سے دل و دماغ روشن ہوجاتا ہے۔ |
گلزار | : | علم بنجر زمین کو گلزار بنا دیتا ہے |
تفریق | : | جہالت کے سبب تفریق پیدا ہوتی ہے۔ |
قوّت | : | علم کی قوت ملک کی ترقی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ |
ان لفظوں کے متضاد لکھیے
انسان | : | حیوان |
عالم | : | ان پڑھ |
پھول | : | کانٹا |
جینا | : | مرنا |
ان پڑھ | : | عالم |
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں |
I have this book
ReplyDelete