خدا کے نام خط
اس وادی کا اکلوتا مکان ایک چھوٹی سی چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہوکر بہتے ہوئے دریا، مٹر اور چنے کے کھیتوں کو به خوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کھیت بڑی عمدہ فصل دیتے تھے ۔ اور انھیں جس چیز کی بے حد ضرورت تھی وہ بارش تھی۔
ین شو اپنی زمین اور کھیتوں کے چپّےچپّے سے واقف تھا۔ وہ آج صبح سے بار بار آسمان دیکھے جا رہا تھا ۔ اس نے تشویش ناک لہجے میں کہا:
”بی بی! میرا قیاس ہے کہ آج بارش ہوگی۔“
”بی بی! میرا قیاس ہے کہ آج بارش ہوگی۔“
بی بی نے جو اس وقت کھانا تیار کر رہی تھی ، یہ سن کر جواب دیا:
”ہاں، آج کسی بھی وقت بارش ہوسکتی ہے اگر رب چاہے تو..........“
اس وقت بڑی عمر کے لڑ کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے بچے مکان کے نزدیک کھیل رہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد بی بی نے انھیں آواز دی:
”آجاؤ ، سب آجاؤ ، کھانا تیار ہے۔“
جب سب مل کر کھانا کھارہے تھے تو جیسا کہ لین شونے قیاس آرائی کی تھی، بارش ہونے لگی۔ بارش کے شفاف قطرے زمین پر برس رہے تھے اور آسمان پرشمال کی جانب سے بادلوں کے پہاڑ چلے آرہے تھے۔ ہوا بھی تیز تھی ۔ لین شو باہر کھیتوں میں نکل گیا۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہ تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ کو اپنے تن من میں رواں دواں دیکھے۔ جب وہ گھر میں واپس آیا تو جذباتی اور جوشیلی آواز میں بولا:
” جو کچھ اس وقت آسمان سے برس رہا ہے وہ بارش کے قطرے نہیں بلکہ سکّے ہیں، بڑے اور چھوٹے ‘‘
پھر اس نے بڑے اطمینان سے یہ بھی کہا کہ غلّے کے کھیت اور مٹر کے نئے نئے کھلے ہوئے پھول بارش کی چادریں اوڑھ کر بہت خوش ہیں۔ ابھی اس نے یہ کہا ہی تھا کہ یک بارگی تند و تیز آندھی اُٹھی پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ اولے واقعی چاندی کے گول گول ڈلوں سے مشابہ تھے۔ بچوں نے یہ دیکھا تو لپک کر اندر سے باہر آگئے اور انھیں چنے میں جٹ گئے ۔ بچے خوش تھے لیکن ان کا باپ فکر مند ہوکر خود سے کہنے لگا ”اب تو معاملہ بگڑنے لگا ہے، لیکن پھر بھی مجھے امید ہے کہ سب کچھ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گا۔“
لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا اور بہت دیر تک اولے گرتے رہے ۔ زمین ایسے سفید ہوگئی ، جیسے اس پر نمک کی چادر بچھادی گئی ہو ۔ درختوں پر ایک پتہ بھی نہ رہا۔ غلّے کے کھیتوں کا ستیاناس ہو گیا، مٹر کی بیلیں اور پودوں کے تازہ پھول ٹوٹ کر بکھر گئے۔ لین شو پریشان ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹوں سے کہا:
”اگر ان کھیتوں پر ٹڈی دل نے حملہ کیا ہوتا تو بھی ہمارے پاس اس سے زیادہ بچ رہا ہوتا لیکن اس ژالہ باری نے تو ہمیں مفلس اور قلاش بنا دیا ہے۔ اب ہمارے پاس نہ غلہ ہے اور نہ سبزی ہے۔ اس سال تو میں فاقے پر فاقے کرنا ہوں گے۔“
وہ تمام لوگ جو وادی کے اس اکلوتے مکان میں رہتے تھے اپنے دلوں میں ایک ناقابلِ شکست امید لیے بیٹھے تھے اور ایک اَن دیکھی قوت پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا:
”دل چھوٹا مت کرو، ہمت مت ہارو“
”اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ بھوک سے کوئی نہیں مرتا‘‘
لین شو کے تمام خیالات اپنی آخری امید یعنی آسمانی امداد کے گِرد گھومتے رہے۔ اس کو بچپن ہی سے تعلیم دی گئی تھی کہ سب کا پالن ہار بڑا رحیم اور کریم ہے۔ انسان کے دل کی گہرائیوں کی بات جانتا ہے۔
لین شو اپنے کھیتوں میں بیل کی طرح کام کرتا تھا۔ وہ کچھ لکھنا پڑھنا بھی جانتا تھا۔ آئنده اتوار تک اس نے اپنے آپ کواس بات کا یہ پختہ یقین دلا دیا کہ ایک ان دیکھی محافظ ہستی موجود ہے۔ اس یقین کے بعد اس نے خدا کے نام ایک خط لکھنا شروع کیا۔
”یاربّی !“
اگر تو نے میری مد د نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس وقت ایک سو روپیوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ میں کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکوں اور ان میں بوائی کرسکوں اور نئی فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکوں کیوں کہ ژالہ باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے۔“
الفانے پر پتے کی جگہ اس نے یہ الفاظ لکھے:
”یہ خط خدا کو ملے“
اس کے بعد اس نے لفافے کو بند کیا اور غمگین دل کے ساتھ شہر کی طرف چل دیا۔ ڈاک خانے پہنچ کر اس نے ٹکٹ خریدے، لفافے پر چپکائے اورلفافہ سپرد ڈاک کردیا۔
اس ڈاک خانے کے ایک ڈاکیے نے جو خطوں کی تقسیم کے ساتھ ان کی چھٹائی کا کام کیا کرتا تھا، ہنستے ہوئے یہ لفافہ اپنے افسر کو پیش کردیا۔ اپنی ساری ملازمت کے دوران اس نے اس پتے پر کبھی ڈاک نہیں پہنچائی تھی۔ پوسٹ ماسٹر ایک خوش مزاج اور دردمند دل کا آدمی تھا وہ بھی اس لفافے کو دیکھ کر بے اختیار ہنسنے لگا لیکن قہقہوں کے درمیان وہ یک بارگی ، خاموش اور سنجیدہ ہو گیا ۔ اس نے لفافہ میز پر رکھ دیا اور کہنے لگا:
”واہ، واہ! کیا پختہ ایمان ہے ، کاش مجھے بھی ایسا ایمان نصیب ہوتا اور میں بھی ایسے ہی یقین کا حامل ہوتا ۔ کیا بات لکھنے والے کی جس نے ایک پختہ امید پر خدا سے خط و کتابت شروع کردی ، واہ، وا“
پھر اس نے سوچا ایسے پختہ ایمان اور امید کو پاش پاش کرنا اچھا نہیں ۔ اس نے اپنے ماتحتوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ خط پڑھا جائے اور اس کا جواب دیا جائے۔ جب لفافہ چاک کیا اور خط پڑھا تب اندازہ ہوا کہ اس خط کا جواب کاغذ، قلم، دوات، روشنائی، دردمندی اور نیک دلی سے کچھ زیادہ کا طلب گار ہے۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو ساری بات بتا کر چندے کی درخواست کی اور خود بھی ایک اچھی خاصی رقم پیش کی ۔ اس کے عملے نے اس کارِ خیر میں حسب توفیق ہاتھ بٹایا۔
لین شونے جس قدر رقم طلب کی تھی اتنی تو جمع نہ ہوسکی پھر بھی اس کے نصف سے کچھ زیادہ کا انتظام ہو گیا۔ پوسٹ ماسٹر نے تمام نوٹ ایک لفافے میں بند کیے پھر اس پر لین شو کا پتہ تحریر کیا اور ایک چٹھی لکھ کر لفافے میں رکھ دی جس پر دستخط کے طور پر صرف اتنا لکھا تھا۔
”خدا“
اگلے اتوار کو پھر لین شو ڈاک خانے میں آیا اور پوچھا کہ کیا اس کے نام کوئی خط آیا ہے؟ پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط اس کے حوالے کیا اور اس کار خیر کے انجام دینے پر ایک طرح کی خوشی محسوس کی۔ اس کے بعد وہ دروازے کی دراز سے لین شوکی کیفیات دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ نوٹ پا کر لین شو کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ اس کو تو جیسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ یہ رقم تو اس کو ملنے ہی والی ہے ۔ پھر جب اس نے رقم گن لی تو بگڑ گیا اور بڑ بڑانے لگا۔
”خدا نے تو ہرگز ایسی غلطی نہیں کی ہوگی اور نہ اس کے پاس اس چیز کی کمی ہے جو میں نے اس سے خط کے ذریعے طلب کی تھی۔ وہ تو اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے۔“
پھر کچھ سوچ کر ڈاک خانے کی کھڑکی پر گیا ، کاغذ قلم طلب کیا اور پھر خط لکھنے بیٹھ گیا۔ اس کی پیشانی پر ابھرنے والی لکیریں بتا رہی تھیں کہ وہ جملے بنانے کے لیے اپنے ذہن کو بری طرح ٹٹول رہا ہے۔ اس کیفیت میں اس نے خط بہ مشکل پورا کیا اور اچھی طرح دیکھ بھال کے اسے لفافے میں بند کیا پھر ٹکٹ خریدا اور اس کو ایک زور دار مکے کے ساتھ بند کر دیا۔
پھر جیسے ہی خط لیٹربکس میں گرا تو ڈاکیے نے فوراً ہی اسے نکال لیا۔ خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا۔ ”یاربّی !‘‘ جو رقم میں نے طلب کی تھی، اس میں سے مجھے صرف ستر روپے ہی ملے ہیں ۔ باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں۔ مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے۔ لیکن اب باقی رقم ڈاک کے ذریعے ہرگز نہ بھیجیں کیونکہ اس ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔“
(گریگور پولو پینز فوآنتے)
لوک کہانی
یہ سبق اسپینی زبان کی ایک لوک کہانی پرمشتمل ہے۔ لوک کہانی کسی معاشرے کے افراد میں سنی سنائی جانے والی ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں فطرت، انسان اور ماحول کی دوسری تفصیلات کے متعلق روایتوں کو اخلاقی تعلیم وتربیت کی خاطر کہانی کے روپ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اس کہانی میں خدا پر ایک کسان کے پختہ یقین کو اس ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے کہ اس سے باہمی ہمدردی اور انسان دوستی کی تصویر کشی ہوجاتی ہے۔
خلاصہ:
وادی کا اکلوتا مکان ایک چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہو کر بہتے ہوئے دریا مٹر اور چنے کے کھیتوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کھیت عمدہ فصل د یتے تھے اور فصل کے
لئے ہمیشہ بارش کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اس مکان میں کھیتوں کا مالک اور کسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ آج صبح بار بار آسمان کو دیکھے جارہا تھا۔ اس نے آسمان دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا آج بارش ہوسکتی ہے۔ اس وقت بڑی عمر کے لڑ کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے بچے مکان کے نزدیک کھیل رہے تھے۔ بیوی کھانا پکا رہی تھی ۔ کھانا تیار ہو گیا تو سب مل کر کھانے لگے۔ کھانا کھانےکے دوران بارش شروع ہوگئی ۔ بارش ہونے پر لین شو کھیت دیکھنے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور بڑے جذباتی اور جوشیلی آواز میں بولا ، جو کچھ اس وقت آسمان سے برس رہا ہے وہ بارش کے قطرے نہیں بلکہ سکے ہیں چھوٹے بڑے۔ ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ ایک بارگی تند و تیز آندھی آئی اور پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ بچے اولے دیکھ کر خوش تھے لیکن باپ فکر مند تھا کہ اولے گرنے
سے فصل تباہ ہو جائے گی۔ اس روز اس قدرژالہ باری ہوئی کہ ساری فصل کا ستیاناس ہو گیا ۔ لین شو نے پریشان ہو کر بیٹوں سے کہا ”اس ژالہ باری نے تو ہمیں مفلس اور قلاش بنا دیا ہے۔ اس سال تو ہمیں فاقے پہ فاقے کرنے ہوں گے" ۔ حالات سے پریشان ہو کر اس نے خدا کے نام ایک خط لکھا اور پوسٹ کر دیا۔ ڈاک خانے میں جب یہ خط پہنچا تو ڈاکیے نے پوسٹ ماسٹر کو دیا کہ اپنی ساری ملازمت کے دوران اس نے اس پتے پر کبھی ڈاک نہیں پہنچائی ۔ پوسٹ ماسٹر نے خط لیا اور کھول کر دیکھا اور پڑھ کر کہا کہ اس شخص کا کتنا پختہ ایمان ہے کہ خدا اس بری حالت میں ضرور مدد کرے گا۔ چنانچہ اس نے لین شوکی مدد کرنے کے لئے اپنے ماتحتوں سے چندہ کیا اور ایک لفافے میں یک رقم رکھ کر اس کے ساتھ ایک چٹھی بھی رکھ دی۔ خط ختم کرنے پر دستخط کی جگہ ”خدا“ لکھ دیا۔ ایک ہفتے بعد اتوار کو لین شو ڈاکخانے پہنچا اور اپنے نام خط دیکھ کر اسے کھولا ۔ لفافے میں رکھی رقم گن کر وہ بڑبڑانے لگا۔ خدا تو نے ہرگز ایسی غلطی نہیں کی ۔ پھر اس نے ایک اور خط لکھا۔ لیٹربکس میں ڈال دیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکیے نے خط نکالا۔ اس میں لکھا تھا یار بی ! جتنی رقم میں نے طلب کی تھی اس میں سے صرف 70 روپے ملے ہیں۔ باقی رقم بھی ارسال کر دیں مگر ڈاک کے ذریعے نہیں ۔ ڈاکخانے کے ملازمین بے ایمان اور بددیانت ہیں۔
|
مشق
معنی یاد کیجیے:
قياس | : | اندازہ |
شُدبُد | : | سمجھ |
شفاف | : | صاف |
ترنگ | : | جوش، خوشی |
قلّاش | : | غربت |
پاش پاش کرنا | : | ٹکڑے ٹکڑے کرنا |
کارخیر | : | نیک کام |
بددیانت | : | بے ایمان |
غور کیجیے:
نقصان ہوجانے کے باوجود انسان کو ہمت نہیں ہارنا چاہیے اور نہ ہی نا امید ہونا چاہیے۔
سوچیے اور بتائیے:
1. لین شو نے بی بی سے کیا قیاس آرائی کی؟
جواب: لین شو کا پہلے سے ہی قیاس تھا کہ آج بارش ہوگی۔
2. لین شو بارش میں کھیتوں کی طرف کیوں گیا؟
جواب: اس کا مقصد تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ اپنے من تن میں رواں دواں دیکھے۔
3. ژالا باری سے کیا نقصانات ہوئے؟
جواب: ژالا باری سے درختوں پر ایک پتّہ نہ رہا غلّے کے کھیتوں کا ستیاناس ہوگیا مٹر کی بیلیں، پودے اور تازہ پھول تک جل گئے۔
4. لین شو نے خدا کے نام خط میں کیا لکھا؟
جواب: لین شو نے خدا کے نام خط میں لکھا کہ یا ربّی اگر تونے میری مدد نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کے شکار ہو جائیں گے۔ اس نے خدا کو لکھا کہ اس وقت اسے ایک سو روپوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکے اور ان میں بوائی کر سکے اور فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکے کیونکہ ژالا باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے۔
5. لین شو نے لفافے پر کیا پتہ لکھا؟
جواب: لفافے پر پتہ لکھنے کی جگہ اُس نے لکھا کہ یہ خط خدا کو ملے۔
6. پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط پڑھنے کے بعد کیا کیا؟
جواب: پوسٹ ماسٹر نے اپنے ماتحتوں سے لین شو کی مدد کے لیے چندے اکٹھا کرنے کو کہا اور خود بھی ایک بڑی رقم چندے میں دی۔
7. لین شو نے پہلے خط کا جواب ملنے کے بعد دوسرے خط میں خدا کو کیا لکھا؟
جواب: دوسرے خط میں لین شو نے لکھا کہ یا ربّی! جو رقم میں نے طلب کی تھی اُس میں سے مجھے صرف ستتر روپیے ہی ملے ہیں باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے لیکن اب باقی رقم ہرگز ڈاک کے ذریعے نہ بھیجیں کیونکہ اس ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔
لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ
|
: |
معنی
|
: |
جملہ
|
اکلوتا | : | اکیلا | : | یوسف اپنے مان باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ |
ملازمین | : | خدمت گزار | : | لین شو کے ڈاک خانے کے ملازمین بہت بے ایمان تھے۔ |
نیک دلی | : | سچّے دل سے | : | اللہ ہمیں ہماری نیک دلی کا پورا اجر دیتا ہے۔ |
پختہ یقین | : | مکمل یقین | : | لین شو کو اپنے خدا پر پختہ یقین تھا۔ |
تکیا کرنا | : | دوسروں پر منحصر ہونا | : | لین شو نے دوسروں پر تکیا کرنا چھوڑ دیا۔ |
۔
ان لفظوں کے متضاد لکھیے:
شہر | : | گاؤں |
موجود | : | غیرحاضر |
پختہ | : | کچّا |
شکست | : | فتح |
تیز | : | آہستہ |
نزدیک | : | دُور |
واحد اورجمع:
خط | : | خطوط |
افسر | : | افسران |
سبزی | : | سبزیاں |
روح | : | ارواح |
چادر | : | چادریں |
مکان | : | مکانات |
عملی کام:
* خدا کے نام لکھے گئے لین شو کے خطوں کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔
کلک برائے دیگر اسباق |
Well done admin
ReplyDelete