غزل
خواجہ میر درد
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے ہم سو کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
دوستوں دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
خواجہ میر درد
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے ہم سو کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
دوستوں دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
0 comments:
Post a Comment