امتحان
(جنوری ۱۹۳۱ میں لکھی ہوئی ایک پرانی نظم)
فیض لدھیانوی
!ہے امتحان سر پر اے ہونہار بچّو
!کوشش کرو ذرا تم مردانہ وار بچّو اچھی نہیں ہے غفلت کب تک رہو گے غافل !کس بات کا ہے تم کو اب انتظار بچّو یہ وقت قیمتی ہےکچھ کام کر دکھاؤ !موقع نہیں ملے گا پھر بار بار بچّو وہ کون سی ہے مشکل ہوتی نہیں جو آساں !ہمت کرو تو پل میں بیڑا ہو پیار بچّو جو شوق سے کرے گا اپنی کمی کو پورا !ہوگا اسی کے دل کو حاصل قرار بچّو جاتی نہیں کسی کی محنت کبھی اکارت !کر دے گا پاس تم کوپروردگار بچّو خوش ہوں گے تم سے اس دن استاد بھی تمہارے !ماں باپ بھی کریں گے جی بھر کے پیار بچّو اس علم کی بدولت پہنچے گا فیض تم کو
!لُوٹو گے زندگی کی آخر بہار بچّو
فیض لدھیانوی
!ہے امتحان سر پر اے ہونہار بچّو
!کوشش کرو ذرا تم مردانہ وار بچّو اچھی نہیں ہے غفلت کب تک رہو گے غافل !کس بات کا ہے تم کو اب انتظار بچّو یہ وقت قیمتی ہےکچھ کام کر دکھاؤ !موقع نہیں ملے گا پھر بار بار بچّو وہ کون سی ہے مشکل ہوتی نہیں جو آساں !ہمت کرو تو پل میں بیڑا ہو پیار بچّو جو شوق سے کرے گا اپنی کمی کو پورا !ہوگا اسی کے دل کو حاصل قرار بچّو جاتی نہیں کسی کی محنت کبھی اکارت !کر دے گا پاس تم کوپروردگار بچّو خوش ہوں گے تم سے اس دن استاد بھی تمہارے !ماں باپ بھی کریں گے جی بھر کے پیار بچّو اس علم کی بدولت پہنچے گا فیض تم کو
!لُوٹو گے زندگی کی آخر بہار بچّو
0 comments:
Post a Comment