آدمی کی کہانی
آج کل کے عالم کہتے ہیں کہ ہماری دنیا پہلے آگ کا ایک گولا تھی، اُس آگ کا
نہیں جو ہمارے گھروں میں جلتی ہے ۔ یہ ایک اور ہی آگ تھی جو بن جلائے جلی
اور بن بجھائے بجھ گئی ۔ شاید یہ وہ چیز تھی جسے ہم بجلی کہتے ہیں ۔ لیکن
کبھی نہ کبھی دنیا آگ کا گولا تھی ضرور، کیوں کہ ہمیں ایسے ہی لاکھوں،
کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری زمین پر
اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ اگل دیتے ہیں یا زمین کے اندر
سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ دوسرے آگ کے گولے جو دنیا سے بہت
بڑے اور بہت زیادہ پرانے ہیں، اب تک آگ ہی آگ ہیں ۔ دنیا میں یہ آگ، پانی
اور زمین کیوں بن گئی یہ ہمیں نہیں معلوم ۔ بس ہماری قسمت میں کچھ یہی لکھا
تھا۔
ہاں تو پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑگئی ۔ بھاپ اور دوسری گیسیں پانی ہوگئیں ۔ جو زیادہ ٹھوس حصہ تھا، وہ چٹان بن گیا۔ یہ سب ہوا کب ؟ آج کل کے عالم زمین کی ساخت سے ، چٹانوں اور دھاتوں سے کچھ حساب لگا سکتے ہیں لیکن یہ حساب سنکھ دس سنکھ برس کے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ بے چارے آدی کی کھوپڑی میں سائنس کا یہ حساب سما نہیں سکتا۔
دنیاجب سرد پڑ گئی تو کہیں سے سمندر کی تہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا ۔ وہاں وہ پھٹا اور پھلا پھولا ۔ لاکھوں کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے۔ آہستہ آہستہ یعنی وہی لاکھوں کروڑوں برس میں اس نے پودوں اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر یعنی سانس لے کر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ پودے اونچے ہونے لگے اور سر اٹھا کر آسمان کی طرف لپکے۔ جو کیڑے تھے وہ مچھلی بن کر تیرے ۔ اتھلے پانی میں پاؤں کے بل چلے، خشک زمین پر رینگنا شروع کیا۔ ہوا میں پرند بن کر اڑے ، چوپایوں کا روپ لے کر دوڑنے لگے۔ کہتے ہیں کہ اتھلے پانی اور خشکی میں زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیانک تھیں۔ چالیس فٹ لمبے مگر مچھ، بیس بیس ہاتھ اونچے ہاتھی، کسی جانور کی گردن اتنی لمبی کہ ہوامیں اڑتے پرندوں کو پکڑ لے، کسی کا منہ دم کے سرے تک سوفٹ سے زیادہ لمبا ہو گا۔ ان جانوروں کو جو نام دیے گئے ہیں وہ بھی ایسے بھیانک ہیں بَرنٹُو سَورَس ، اِگتھیو سَورس میگسلو سَورَس وغیرہ لیکن دنیا کو شاید اپنی یہ اولاد پسند نہ تھی۔ یا یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہوگیا ۔ بہر حال وہ غائب ہوگئے اور جب تک آج کل کے سائنس دانوں کو ان کی ہڈیاں نہیں ملیں کسی کو پتا بھی نہ تھا کہ ایک زمانے میں ایسے دیو اور اژدہے ہماری دنیا میں آباد تھے۔
خشکی پر ان بڑے جانوروں کے بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤ نے مگر ان میں آج کل کے جانوروں کی یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں دودھ پلا کر پالتے تھے۔ ایسے جانور پہلی قسم کے جانوروں سے زیادہ سخت جان نکلے اور دنیا کی مصیبتوں کو چھیل لے گئے، پھر بھی ان کی بہت سی قسمیں مر مٹیں۔ جو باقی بچیں، ان کے بھی جسموں میں ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں کہ وہ موسم کی سختیوں کو اچھی طرح برداشت کرسکیں اور دوسرے جانوروں سے اپنی جان بھی بچا سکیں۔ اس طرح ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل پائی ہوگی جو آدمیوں کی شکل سے کچھ ملتی ہوگی ۔ جانوروں کی اس قسم کو آسانی سے بن مانس کہہ سکتے ہیں ۔ ان بن مانسوں نے چار پیروں کی جگہ دو پیروں سے چلنا سیکھا اور اگلے دو پیروں سے پکڑنے، اٹھانے اور پھینکنے کا کام لینے لگے۔ قدرت نے ان کی مدد کی اور ان کے اگلے دو پیر پنجوں کی طرح ہو گئے ۔ ان کی زبان بھی کچھ کھل گئی اور وہ دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ ہوشیار ہو گئے۔
یہ سب ہزاروں برس میں ہوا اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا کی آب و ہوا بدلی۔ وہ ایسی ٹھنڈی پڑی کہ اس کا بہت سا حصّہ برفستان ہوگیا اور برف کے کھسکتے پھسلتے پہاڑوں نے سب کچھ اپنے تلے روند ڈالا ۔ پھر گرمی آہستہ آہستہ بڑھی ۔ برفستان پگھل کر سمندر ہو گئے اور زندگی پھر ابھری اور پھیلی ۔ اس طرح چار مرتبہ ہوا اور اس وقت زمین میں کئی سو گز نیچے تک میں جو کچھ ملتا ہے وہ انھی گرمی اور سردی کے پھیروں کی داستان سناتا ہے۔ اس زمانے میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بن مانسوں کا برا حال ہوا ہوگا۔ ان میں سے بعض کی ایک دو بڈیاں برف کے نیچے اور جانوروں کی ہڈیوں کے ساتھ دفن ہوگئیں اور اب زمین کے اندر بہت دور پڑی ہیں ۔ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کروڑ یا لاکھ برس پہلے آباد تھے اور ان کے زمانے میں زمین کی کیا صورت تھی لیکن انھوں نے اس دوران میں شاید دو چار باتیں سیکھ لی تھیں جو بہت کام کی تھیں۔ کہیں جنگلوں کو جلتے دیکھ کر انھوں نے پتہ لگا لیا تھاکہ آگ کیسے جلاتے ہیں اور پھر وہ اپنی کھوہوں اور غاروں میں آگ جلا کر تاپنے لگے اور اس میں جانوروں کا گوشت اور شاید چند پھلوں اور چیزوں کو بھوننے لگے۔ وہ پتھروں کو گھس کر ان سے بھونکنے، چھیلنے اور کاٹنے بھی لگے اور اس نے ان کی زندگی کو کچھ اور آسان کر دیا ۔ آج کل کا علم بتاتا ہے کہ ہم انھی بن مانسوں کی اولاد ہیں اور جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے ہی بن مانس آدمی ہو گئے لیکن آج کا علم بن مانسوں کی کسی ایک قسم سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہیں تو ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لیکن ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔
وطن واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد مقرر ہوئے ۔ 1948 میں انھوں نے شیخ الجامعہ کی نئے داری سنبھالی اور ای عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
نھیں کتب بینی، فن تعمیر ، سنگ تراشی، مجسمہ سازی، مصوری ، موسیقی اور باغبانی سے دی تھی ۔ علمی میدان میں تاریخ نگاری ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ دنیا کی کہانی (1931)، تار فلسفه سیاست (1936)، تاریخ تمدن ہند (1957) اور روی ادب کی تاریخ دو جلدیں (1960) ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ پروفیسر مجیب کو ادب سے بھی گہری دی تھی۔ انھوں نے ڈرامے پر خصوصی توجہ دی اور آٹھ ڈرامے لکھے۔ ان میں سے کیت، انجام ، خانہ جنگی اور آزمائش جامعات کے نصاب میں شامل رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے ایک ڈراما ” أو ڈراما کر میں بھی لکھا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے جن میں کیمیاگر، باغی، چراغ راه ، اند میرا اور تھر مقبول ہوئے۔ وہ ایک کامیاب مترجم بھی تھے۔ ان کی قومی، علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کا خطاب دیا۔
معنی یادکیجیے:
غور کیجیے:
ہماری دنیا ایک دم نہیں بن گئی بلکہ اس کے بنے میں خاصہ وقت لگا ہے اور یہ درجہ بہ درجہ اپنی تکمیل کو پینی ہے۔ یہ دنیا انسان اور حیوان کبھی کے لیے بنائی گئی ہے۔ کبھی جانداروں کو جینے کا حق حاصل ہے۔
سوچنے اور بتایئے:
ہاں تو پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑگئی ۔ بھاپ اور دوسری گیسیں پانی ہوگئیں ۔ جو زیادہ ٹھوس حصہ تھا، وہ چٹان بن گیا۔ یہ سب ہوا کب ؟ آج کل کے عالم زمین کی ساخت سے ، چٹانوں اور دھاتوں سے کچھ حساب لگا سکتے ہیں لیکن یہ حساب سنکھ دس سنکھ برس کے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ بے چارے آدی کی کھوپڑی میں سائنس کا یہ حساب سما نہیں سکتا۔
دنیاجب سرد پڑ گئی تو کہیں سے سمندر کی تہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا ۔ وہاں وہ پھٹا اور پھلا پھولا ۔ لاکھوں کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے۔ آہستہ آہستہ یعنی وہی لاکھوں کروڑوں برس میں اس نے پودوں اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر یعنی سانس لے کر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ پودے اونچے ہونے لگے اور سر اٹھا کر آسمان کی طرف لپکے۔ جو کیڑے تھے وہ مچھلی بن کر تیرے ۔ اتھلے پانی میں پاؤں کے بل چلے، خشک زمین پر رینگنا شروع کیا۔ ہوا میں پرند بن کر اڑے ، چوپایوں کا روپ لے کر دوڑنے لگے۔ کہتے ہیں کہ اتھلے پانی اور خشکی میں زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیانک تھیں۔ چالیس فٹ لمبے مگر مچھ، بیس بیس ہاتھ اونچے ہاتھی، کسی جانور کی گردن اتنی لمبی کہ ہوامیں اڑتے پرندوں کو پکڑ لے، کسی کا منہ دم کے سرے تک سوفٹ سے زیادہ لمبا ہو گا۔ ان جانوروں کو جو نام دیے گئے ہیں وہ بھی ایسے بھیانک ہیں بَرنٹُو سَورَس ، اِگتھیو سَورس میگسلو سَورَس وغیرہ لیکن دنیا کو شاید اپنی یہ اولاد پسند نہ تھی۔ یا یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہوگیا ۔ بہر حال وہ غائب ہوگئے اور جب تک آج کل کے سائنس دانوں کو ان کی ہڈیاں نہیں ملیں کسی کو پتا بھی نہ تھا کہ ایک زمانے میں ایسے دیو اور اژدہے ہماری دنیا میں آباد تھے۔
خشکی پر ان بڑے جانوروں کے بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤ نے مگر ان میں آج کل کے جانوروں کی یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں دودھ پلا کر پالتے تھے۔ ایسے جانور پہلی قسم کے جانوروں سے زیادہ سخت جان نکلے اور دنیا کی مصیبتوں کو چھیل لے گئے، پھر بھی ان کی بہت سی قسمیں مر مٹیں۔ جو باقی بچیں، ان کے بھی جسموں میں ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں کہ وہ موسم کی سختیوں کو اچھی طرح برداشت کرسکیں اور دوسرے جانوروں سے اپنی جان بھی بچا سکیں۔ اس طرح ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل پائی ہوگی جو آدمیوں کی شکل سے کچھ ملتی ہوگی ۔ جانوروں کی اس قسم کو آسانی سے بن مانس کہہ سکتے ہیں ۔ ان بن مانسوں نے چار پیروں کی جگہ دو پیروں سے چلنا سیکھا اور اگلے دو پیروں سے پکڑنے، اٹھانے اور پھینکنے کا کام لینے لگے۔ قدرت نے ان کی مدد کی اور ان کے اگلے دو پیر پنجوں کی طرح ہو گئے ۔ ان کی زبان بھی کچھ کھل گئی اور وہ دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ ہوشیار ہو گئے۔
یہ سب ہزاروں برس میں ہوا اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا کی آب و ہوا بدلی۔ وہ ایسی ٹھنڈی پڑی کہ اس کا بہت سا حصّہ برفستان ہوگیا اور برف کے کھسکتے پھسلتے پہاڑوں نے سب کچھ اپنے تلے روند ڈالا ۔ پھر گرمی آہستہ آہستہ بڑھی ۔ برفستان پگھل کر سمندر ہو گئے اور زندگی پھر ابھری اور پھیلی ۔ اس طرح چار مرتبہ ہوا اور اس وقت زمین میں کئی سو گز نیچے تک میں جو کچھ ملتا ہے وہ انھی گرمی اور سردی کے پھیروں کی داستان سناتا ہے۔ اس زمانے میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بن مانسوں کا برا حال ہوا ہوگا۔ ان میں سے بعض کی ایک دو بڈیاں برف کے نیچے اور جانوروں کی ہڈیوں کے ساتھ دفن ہوگئیں اور اب زمین کے اندر بہت دور پڑی ہیں ۔ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کروڑ یا لاکھ برس پہلے آباد تھے اور ان کے زمانے میں زمین کی کیا صورت تھی لیکن انھوں نے اس دوران میں شاید دو چار باتیں سیکھ لی تھیں جو بہت کام کی تھیں۔ کہیں جنگلوں کو جلتے دیکھ کر انھوں نے پتہ لگا لیا تھاکہ آگ کیسے جلاتے ہیں اور پھر وہ اپنی کھوہوں اور غاروں میں آگ جلا کر تاپنے لگے اور اس میں جانوروں کا گوشت اور شاید چند پھلوں اور چیزوں کو بھوننے لگے۔ وہ پتھروں کو گھس کر ان سے بھونکنے، چھیلنے اور کاٹنے بھی لگے اور اس نے ان کی زندگی کو کچھ اور آسان کر دیا ۔ آج کل کا علم بتاتا ہے کہ ہم انھی بن مانسوں کی اولاد ہیں اور جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے ہی بن مانس آدمی ہو گئے لیکن آج کا علم بن مانسوں کی کسی ایک قسم سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہیں تو ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لیکن ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔
(پروفیسر محمد مجیب)
خلاصہ:
اس سبق میں بتایا گیا ہے کہ ہماری دنیا پہلے آگ کا ایک گولا تھی
۔ یہ ایک ایسی آگ تھی جو بن جلائے جلی اور بن بجھائے بجھ گئی۔
لاکھوں کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں
اور ہماری زمین پر اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ
اگل رہے ہیں۔ زمین کے اندر سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے
ہیں ۔ دوسرے آگ کے گولے جو دنیا سے بہت بڑے اور بہت زیادہ پرانے
ہیں، اب تک آگ ہی آگ ہیں ۔ دنیامیں یہ آگ، پانی اور زمین کھول بن
گئی۔ پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑ گئی تو کہیں سے سمندر کی
تہہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا۔ وہاں وہ پھٹا اور ہھلا پھولا۔
کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے۔ آہستہ آہستہ اس نے پودوں
اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر
سانس لے کر زندہ ۔ رہنے کی صلاحیت پیدا کی ۔ پودے او نیچے ہونے
لگے۔ کچھ کیڑے مچھلی بن کر تیرے، پچھے پرند بن کر اڑے، کچھ
چوپایوں کا روپ لے کر خشکی پر دوڑنے لگے۔ پانی اور خشکی میں
زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیا نک تھیں ۔ چالیس
فٹ لمبے مگر مچھ بیس بیس ہاتھ ہاتھ اونچے ہاتھی کسی جانور کی
گردن اتنی لمبی کہ ہوا میں اڑتے پرندوں کو پڑے۔ ان جانوروں کو جو
نام دیئے گئے وہ بھی بھیانک تھے۔ یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے
ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہوگیا۔ خشکی پران بڑے جانوروں کے
بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤنے مگر ان میں
آج کل کے جانوروں کی یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں
دودھ پلاتے تھے۔ ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل
پائی ہوگی جو آدمیوں سے کچھ ملتی ہوگی ۔ یہ سب ہزاروں برس میں
ہوا۔ آج کل کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہم انہی بن مانسوں کی اولاد
ہیں اور جیسے جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے
ہی بن مانس آدی ہو گئے۔ لیکن آج کا علم بن مانس کی کسی ایک قسم
سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی
پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔
|
پروفیسر محمد مجیب
(1902-1985)
محمد مجیب لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ 1918
میں سینیر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ 1919 میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے
لیے انگلینڈ گئے۔ 1922 میں بی ۔ اے آنرس پاس کیا۔ لندن میں انھوں نے
فرانسیسی اور لاطینی یھی۔ وہاں سے برلن گئے اور چینی زبان میں بھی کمال
حاصل کیا۔وطن واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد مقرر ہوئے ۔ 1948 میں انھوں نے شیخ الجامعہ کی نئے داری سنبھالی اور ای عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
نھیں کتب بینی، فن تعمیر ، سنگ تراشی، مجسمہ سازی، مصوری ، موسیقی اور باغبانی سے دی تھی ۔ علمی میدان میں تاریخ نگاری ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ دنیا کی کہانی (1931)، تار فلسفه سیاست (1936)، تاریخ تمدن ہند (1957) اور روی ادب کی تاریخ دو جلدیں (1960) ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ پروفیسر مجیب کو ادب سے بھی گہری دی تھی۔ انھوں نے ڈرامے پر خصوصی توجہ دی اور آٹھ ڈرامے لکھے۔ ان میں سے کیت، انجام ، خانہ جنگی اور آزمائش جامعات کے نصاب میں شامل رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے ایک ڈراما ” أو ڈراما کر میں بھی لکھا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے جن میں کیمیاگر، باغی، چراغ راه ، اند میرا اور تھر مقبول ہوئے۔ وہ ایک کامیاب مترجم بھی تھے۔ ان کی قومی، علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کا خطاب دیا۔
معنی یادکیجیے:
آتش فشاں | : | آگ اگلنے والا |
ساخت | : | بناوٹ |
سنکھ | : | سوکھرب |
کھوپڑی میں نہ سمانا | : | سمجھ میں نہ آنا |
صفت | : | خاصیت |
سخت جان | : |
تکلیف برداشت کرنے والے |
تلے | : | نیچے |
داستان | : | لمبی کہانی فکشن کی ایک قسم |
گھوہ | : | غار |
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہونا | : | ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھنا، ایک ہی جیسی خصوصیات رکھنا |
قدیمی | : | پرانا، قدیم |
ہماری دنیا ایک دم نہیں بن گئی بلکہ اس کے بنے میں خاصہ وقت لگا ہے اور یہ درجہ بہ درجہ اپنی تکمیل کو پینی ہے۔ یہ دنیا انسان اور حیوان کبھی کے لیے بنائی گئی ہے۔ کبھی جانداروں کو جینے کا حق حاصل ہے۔
سوچنے اور بتایئے:
1. زمین سے بڑے آگ کے گولے کون سے ہیں؟
2۔ زمین کی بناوٹ سے زمین کی عمر کا اندازہ کس طرح لگایا جاسکتا ہے؟
3۔ زمین پر مختلف جانداروں کی نشوونما کیسے ہوئی؟
4. دودھ پلانے والے جانور بڑے بڑے بے ڈول جانوروں سے زیادہ سخت جان کیوں
نکلے؟
5۔ زمین کے برفتان بن جانے پر جانداروں کا کیا حال ہوا؟
6۔ آگ جلاناسیکھنے کے بعد انسانی زندگی میں کیا تبدیلی ہوئی؟
نیچے لکھے ہوئے محاوروں اور کہاوتوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
کھوپڑی میں نہ سمانا
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہونا
بھیس بدلنا
عملی کام:
زمین پر پائے جانے والے مختلف قدیم جانوروں کی تصویریں جمع کیجیے۔
نیچے لکھے ہوئے محاوروں اور کہاوتوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
کھوپڑی میں نہ سمانا
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہونا
بھیس بدلنا
عملی کام:
زمین پر پائے جانے والے مختلف قدیم جانوروں کی تصویریں جمع کیجیے۔
کلک برائے دیگر اسباق |
answers?
ReplyDeleteaapki website sabse best hai ❤️❤️but aapni is chapter ke answers nahi upload kiye ye aapki mistake hai 🥺❤️
ReplyDeleteWhere is answer?
ReplyDeleteWhere is answer?
ReplyDeleteanswers kahan hai
ReplyDelete