کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی اُمّید بَر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
(1797 - 1869)
مرزا اسد اللہ خاں غالب کی ولادت آگرے میں ہوئی ۔ ابھی وہ بچے ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ۔ شادی کے بعد غالب دہلی آگئے ۔ یہاں کے علمی اور ادبی ماحول میں ان کے شعری ذوق کی تربیت ہوئی۔ بہت جلد انھوں نے اپنی الگ پہچان بنالی اور اعلیٰ ادبی مقام حاصل کرلیا۔ غالب نظم اور نثر دونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ دونوں میں ان کا انداز بہت منفرد اور دل کش ہے۔
خیال کی بلندی، مضمون آفرینی اور شوخی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ان کی شاعری میں انسان کے وجود اور اس کی دنیا کے گہرے مسئلوں کا بیان ملتا ہے۔ غالب جتنے بڑے مفکر تھے اتنے ہی بڑے فنکار بھی تھے۔ اپنے کلام کی وسعت کے ساتھ ساتھ غالب اپنی صناعی اور اپنی طباعی کے لیے بھی ہمشیہ یاد رکھے جائیں گے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غالب نے جو بلند مرتبہ شاعری میں حاصل کیا وہی مرتبہ ان کی نثر کوبھی حاصل ہے۔
’دیوان غالب‘ میں بمشکل دو ہزار اشعار ہیں لیکن غالب ہندوستان ہی نہیں دنیا کے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے خطوط کے مجموعے ”اردو معلّےٰ“ اور ”عود ہندی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔
’دیوان غالب‘ میں بمشکل دو ہزار اشعار ہیں لیکن غالب ہندوستان ہی نہیں دنیا کے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کے خطوط کے مجموعے ”اردو معلّےٰ“ اور ”عود ہندی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔
مشق
معنی یاد کیجیے:
اُمید بر نہ آنا | : | أميد پوری نہ ہونا |
صورت | : | تدبیر، طریقہ |
معيّن | : | طے شدہ |
مگر | : | شاید |
غور کیجیے:
’آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی‘
یہاں ’آگے‘ کے معنی ’پہلے‘ کے ہیں۔
’ورنہ کیا بات کر نہیں آتی‘
یہاں ’کر‘ کے معنی ہیں ’کرنا‘ ۔ یہ پرانا طریقہ ہے۔ آج کل اس کا استعمال اس طرح نہیں ہوتا۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہاں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اُسے اپنی بیماری کے ٹھیک ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے اور اب ہر جانب سے وہ مایوس ہو چکا ہے۔
2۔ دوسرے شعر کا مفہوم بیان کیجیے۔
جواب: اس شعر میں غالب کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موت کا ایک دن معین ہے یعنی موت اپنے وقت پر آنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا دن اور وقت معین کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود انسان رات بھر اپنی موت کے خوف سے سو نہیں پاتا اور اسے ساری رات نیند نہیں آتی ہے۔
3. کعبے جانے سے شاعر کو شرم کیوں آتی ہے؟
جواب: اس شعر میں کعبے جانے سے مراد شاعر کا خدا کے سامنے جانے سے ہے۔ وہ خود سے مخاطب ہے کہ تم نے دنیا کے کون سے گناہ چھوڑے ہیں اور اب تم کعبے جانے کی بات کر رہے ہو۔وہ اپنے گناہوں کو یاد کرکےنادم ہے، وہ کہتا ہے کہ ان سب سے باوجود تم نے ابھی تک اپنے گناہوں سے منہ نہیں موڑا ہے۔۔
یہاں ’آگے‘ کے معنی ’پہلے‘ کے ہیں۔
’ورنہ کیا بات کر نہیں آتی‘
یہاں ’کر‘ کے معنی ہیں ’کرنا‘ ۔ یہ پرانا طریقہ ہے۔ آج کل اس کا استعمال اس طرح نہیں ہوتا۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہاں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اُسے اپنی بیماری کے ٹھیک ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے اور اب ہر جانب سے وہ مایوس ہو چکا ہے۔
2۔ دوسرے شعر کا مفہوم بیان کیجیے۔
جواب: اس شعر میں غالب کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موت کا ایک دن معین ہے یعنی موت اپنے وقت پر آنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا دن اور وقت معین کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود انسان رات بھر اپنی موت کے خوف سے سو نہیں پاتا اور اسے ساری رات نیند نہیں آتی ہے۔
3. کعبے جانے سے شاعر کو شرم کیوں آتی ہے؟
جواب: اس شعر میں کعبے جانے سے مراد شاعر کا خدا کے سامنے جانے سے ہے۔ وہ خود سے مخاطب ہے کہ تم نے دنیا کے کون سے گناہ چھوڑے ہیں اور اب تم کعبے جانے کی بات کر رہے ہو۔وہ اپنے گناہوں کو یاد کرکےنادم ہے، وہ کہتا ہے کہ ان سب سے باوجود تم نے ابھی تک اپنے گناہوں سے منہ نہیں موڑا ہے۔۔
عملی کام:
اس غزل کے قافیے اپنی کاپی میں لکھیے۔
کلک برائے دیگر اسباق |
Thik kaha dost
ReplyDelete