قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
چلو کہ ہم کو منزلیں بلا رہی ہیں دور سے
چلو کہ سارے راستے دھلے ہوئے ہیں نور سے
چمن کھلا کھلا سا ہے
افق دهلا دهلا سا ہے
دیے جلا ؤ راہ میں وطن کا نو سنگھار ہے
نئی نئی بہارہے
قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
سفر کی ابتدا ہے یہ، ابھی رکو نہ راہ میں
پہاڑ ہو کہ غار ہو، نہ لاؤ تم نگاه میں
روش پرانی چھوڑ کے
قدم قدم سے جوڑ کے
چلے چلو کہ وقت کو تمھارا انتظار ہے
نئی نئی بہارہے
قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
کہو، وطن کی خاک ہی کو گلستاں بنائیں گے
روش روش کو اس چمن کی کہکشاں بنائیں گے
کلی کلی نکھار کے
جلاؤ دیپ پیار کے
ہمیں خود اپنے گلستاں پر آج اختیار ہے
نئی نئی بہار ہے
قدم بڑھاؤ دوستو، قدم بڑھاؤ دوستو
|
بشر نواز
بشر نواز کا اصل نام بشارت نواز خاں ہے۔ وہ اورنگ آباد میں 1935ء پیدا ہوئے ۔ وہیں انھوں نے تعلیم حاصل کی ۔ بشر نواز کاتعلق 1960 کے بعد ابھرنے والے شاعروں کی نسل سے ہے۔ اس نسل کے شعرا جدیدیت سے متاثر تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے کلاسیکی شاعری سے بھی دلچسپی برقرار رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ زبان پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور ان کی شاعری میں نئے پن کے ساتھ ساتھ کلاسیکی رنگ بھی ملتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں لیکن نظم گو شاعر کی حیثیت سے بھی معروف ہیں۔
”رائیگاں“ اور ”اجنبی سمندر“ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ان کا انتقال 2015ء میں ہوا۔
معنی یاد کیجیے:
افق | : | جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں |
کہکشاں | : | ستاروں کا جھرمٹ |
روش | : | باغ میں بنا ہوا راستہ، پگڈنڈی ، طریقہ |
گلستاں | : | باغ |
غور کیجیے:
* اس نظم میں لفظ ’روِش‘ کا استعمال ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا ہے۔ جیسے I’روش پرانی چھوڑ کے‘،II’روش روش کواس چمن کی کہکشاں بنائیں گے‘
پہلے مصرعے میں روش کے معنی ہیں طریقہ اور دوسرے مصرع میں اسے پگڈنڈی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
پہلے مصرعے میں روش کے معنی ہیں طریقہ اور دوسرے مصرع میں اسے پگڈنڈی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
سوچیے اور بتایئے:
1. ’قدم بڑھاؤ دوستو‘ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: قدم بڑھاؤ دوستو کہہ کر شاعر لوگوں کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے اگر تم کچھ پانا چاہتے ہو تو آگے بڑھو جہاں کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
2۔ پہاڑ اور غارکو نگاہ میں نہ لانے کا مطلب کیا ہے؟
جواب: پہاڑ اور غار کو نگاہ میں نہ لانے کے معنی یہ ہیں کہ تم مشکلات سے نہ گھبراؤ۔ راہ میں پہاڑ یا غار کچھ بھی آئے تم اس کی پرواہ نہ کرو۔
3۔ اس نظم کے ذریعے شاعر نے کیا پیغام دیا ہے؟
جواب: اس نظم میں شاعر نے یہ پیغام دیا ہے کہ تم اپنی منزل کو پانے کے لیے مسلسل آگے بڑھتے رہو۔ کامیابی کی سمت اپنے قدم بڑھاتے رہو۔ راہ میں آنے والی مشکلوں کی پرواہ نہ کرو اور اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے قدم آگے بڑھاتے رہو۔ اس ملک کے چمن کو گلزار بنادو اور چاروں جانب کامیابی کے جھنڈے گاڑ دو۔ شاعر اس نظم میں اپنے ملک کی ایک ایک روش کو کہکشاں بنانے اور اس چمن کو گلزار بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔
عملی کام:
* جس لفظ سے کسی کام کا ہونا یا کرنا ظاہر ہو، اسے فعل کہتے ہیں جیسے : چلنا، پڑھنا وغیرہ۔ اس نظم میں شامل افعال کی ایک فہرست بنائیے۔
* اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے۔
کلک برائے دیگر اسباق |
0 comments:
Post a Comment