آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday, 2 April 2020

Ashk Aankhon Mein Kab Nahin Aata - Mir Taqi Mir - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Ashk Aankhon mein kab nahin aata by Mir Taqi Mir  Chapter 11 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
میرتقی میر

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا

 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا

 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا

 جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا


میر تقی میر
(1722ء - 1810ء)
میرتقی میر آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درویش صفت انسان تھے۔ میر کی نوعمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا پھر میں دہلی آگئے اور یہاں طویل عرصے تک رہے۔ یہاں خان آرزو کی محبتوں نے ان کے ذوق شعراورعلم کو ترقی دی اور بہت جلد وہ دہلی کے نمایاں شعر میں گئے جانے لگے۔ دلی میں انھوں نے اچھے اور برے دونوں طرح کے دن گزارے، اپنے مربیوں کے ساتھ کچھ وقت راجپوتانے میں گزارا اور بالآخر 1782ء کے قریب وہ لکھنؤ آگئے ۔ نواب آصف الدولہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے سے لے کر آج تک تمام شعرا اور ناقدین نے ان کی شاعران عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ انھیں خدائے تین کہا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انھیں اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔

میر کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں اتنی ہی خوبی سے جگہ دی ہے جس خوبی سے وہ رنج وغم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بظاہر سادہ ہے لیکن اس میں فکر کی گہرائی ہے۔ ان کے شعروں کو چھوتے ہیں ۔ میر اپنی شاعری میں لفظوں کو نے نئے رنگ سے استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نئے نئے معنی پیدا کرتے ہیں ۔ میر نے بر می گن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا اصل میدان غزل او مثنوی ہے۔ اردو میں ان کا خینم گلیات شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے ذکر میز کے نام سے فارسی زبان میں آپ بیتی لکھی اور نکات الشعرا کے نام سے اردو شاعروں کا ذکر چلکھا جسے اردو شعرا کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔


Ashk Aankhon mein kab nahin aata by Mir Taqi Mir  Chapter 11 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
اشک : آنسو
وہ : یہاں بمعنی محبوب
لوہو : (لہو ) خون
مونس : دوست ، دل کو تسلی دینے والا
ہجراں : جدائی
گریہ : آنسو
ہمدم : ساتھی
سخن : بات
غبارمیر : میر کی خاک (یعنی مرکر خاک ہو جانے کے بعد میر کا جسم غبار بن کر ہوا میںاڑ رہا ہے)

تشریح
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا
تشریح : میر کہتے ہیں کہ میں ہجر یار میں ہر دم روتا رہتا ہوں ۔ ایسا کون سا وقت ہونا ہے جب میری آنکھوں میں آنسو نہیں اور جب میری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے تو خون ٹپکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ روتے روتے میری آنکھوں سےآنسوؤں کے بجائے خون نکلنے لگا ہے
 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا
تشریع : میرے ہوش حواس رخصت نہیں ہوئے ہیں ۔ میں پوری طرح ہوش میں ہوں ۔ لوگ مجھے بے کا دیوانہ سمجھتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ جب محبوب آجاتا ہے تو میں ضرور ہوش وخرد سے بے گانہ نہ ہو جاتا ہوں ۔
صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا
تشریح : ہجر کی صعوبت میں اگر کوئی مونس و ہمدرد تھا تو وہ تھا صبر اسی کے سہارے شب ہجراں گزر رجاتی تھی مگراب تو  اس نے بھی ایک مدت ہوئی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اب تو ہمیں کسی طرح قرارنہیں آتا۔
 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا
تشریح:  ہمارے دل سے کوئی خواہش ضرور رخصت ہوئی اسی لئے تو میں رونا آرہا ہے ۔ یہ خواہش و صال یارکی
خواہش بھی ہوسکتی ہے۔
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا
تشریح : اے میرے ہمدم میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کیا کروں جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ باتیں لبوں تک نہیں آ پا تیں۔محجوب کے آتے ہی تمام باتیں بھول جاتا ہوں ۔ غالب نے بھی اس طرح کہا ہے۔
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پو جھو کہ مدیا کیا ہے۔
دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا
تشریح : میر ے والد نے مرتے وقت میر کو ایک ہی وصیت کی تھی کہ بیٹا عشق کر عشق آداب زندگی سکھاتا ہے۔ میرکے جسم کی خاک مرنے کے بعد بھی پاس ادب کی خاطر محبوب تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ یہ سلیقے یہ اد ب عشق ہی کی بدولت ہیں عشق کے بغیر یہ ادب حاصل نہیں ہوتا۔




غور کرنے کی بات
 * میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
 * میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
*  میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
*  یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔
K
سوالوں کے جواب لکھیے
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: اس شعر میں شاعر غم کی شدت بیان کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ غم جب زیادہ شدید ہوتا ہے تو آ نکھوں میں آ نسو نہیں آ تا بلکہ آنکھوںسے۔خون ٹپکتا ہے۔

 2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب: شاعر نے گریہ آ نے کا سبب اپنی سب خواہشوں کا مر جانا بتایا ہے۔

 3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔
جواب: مقطع میں میر کا کہنا ہے کہ تو اگر سچی محبت کرتا ہے تو اپنے محبوب سے دور بیٹھ اور یہ تبھی ممکن ہے جب تو اس سے عشق کرتا ہے۔اس لییے کہ یہ ادب عشق کے بغیر ممکن نہیں۔

عملی کام
*  استاد کی مدد سے غزل کو  صحیح تلفظ اور مناسب ادائیگی سے پڑھیے۔
*  اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
*  اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔


کلک برائے دیگر اسباق

7 comments:

خوش خبری