آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday, 23 April 2020

Asrar Jamai Ke Aakhri Ayyam - Masoom Muradabadi

اردو ادب کا ایک بڑا سرمایہ فیس بُک کی تیز رفتاری کے باعث قارئین کی نظروں سے مختصر مدت میں اوجھل ہوجاتا ہے۔ آئینہ نے فیس بُک کے سمندر سے چنندہ تخلیقات کو اپنے قارئین اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان جواہر پاروں کو آئینہ صاحبِ قلم کے شکریہ کے ساتھ اپنے ویب صفحہ پر شامل اشاعت کر رہا ہے۔(آئینہ)

اسرار جامعی کے آ خری ایام
معصوم مرادآبادی

میں نے علامہ اسرار جامعی کے انتقال کی خبر پاتے ہی اپنی تاثرات تحریر کئے تھے اور کئی اخبارات نے اپنے صفحات کی زینت بنایا۔وہ فوری اور جذبات میں لکھی ہوئی ایک تحریر تھی لیکن اب یہ دوسری تحریر میں اسرار جامعی کے آ خری ایام کی ایک تصویر شئیر کرنے کےلئے لکھ رہا ہوں۔ اس تصویر نے مجھے کافی پریشان کیا اور ان کے آ خری دنوں کی بے بسی اور لاچاری پر مجھے رونا بھی آ یا۔ سچ پوچھئے تو یہ زمانہ کی چیرہ دستیوں سے زیادہ خود ان نجی پریشانیوں کی عکاس ہے جس کی تفصیل آ گے آ ئے گی۔
 وہ پچھلے کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے اور ان کا بیشتر وقت اسپتال اور گھر کا فاصلہ طے کرنے میں گذرتا تھا۔ یوں تو اسرار جامعی کے انتقال کی افواہ کئی بار اڑی لیکن وہ بڑے سخت جان تھے کہ ہربار خود ہی اس کی تردید کرنے کے لئے نمودار ہوجاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ خبر درست ہے  ان کا جنازہ دہلی کے اوکھلا علاقے  کی ایک عمارت کی چوتھی منزل پر میں اس چھوٹے سے کمرے میں لاکر رکھا گیا جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی بے بسی اور بے کسی میں گزارے۔ 
اسرار جامعی ہماری سماجی بے حسی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔سچ پوچھئے تو ہم لوگ ان کی موت کی خبر کا ہی انتظار کر رہے تھے اور لوگوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔جوکوئی بڑی ہمت کرکے ان کی چھوٹی سی کٹیا میں جاتا تو ان کے ساتھ اپنی ایک تصویر فیس بک پر ضرور شئیر کرتا تھا۔ تاکہ ان کی مزاج پرسی کرنے کا ثبوت دے سکے۔ 
82 سال کےاسرار جامعی دہلی کی ادبی محفلوں کی آ برو تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ ان ہی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جہاں انھیں اسٹیج کی زینت بنایا جاتا ہے، ایسی بے شمار تقریبات میں علامہ اسرار جامعی کو میں نے صف سامعین میں ہمہ تن گوش دیکھا۔ ان کی ایک خاص ادا یہ تھی کہ وہ ان تقاریب میں لوگوں کو آ ئینہ دکھانے کے لئے اپنے کچھ قطعات فوٹو اسٹیٹ کرکے لے جاتے تھے اور انھیں تعویذ کی شکل میں تقسیم کرتے تھے۔ اسرار جا معی طنز و مزاح کے شاعر اور صحافی تھے۔ انھوں نے "پوسٹ مارٹم "اور "چٹنی" کے نام سے اپنے مختصر اخبارات شائع کئے اور علم و ادب کی ترسیل میں مصروف رہے۔ " شاعر اعظم" کے عنوان سے ان کے مزاحیہ کلام کا مجموعہ بھی شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوا۔ جسے دہلی اردو اکیڈمی نے شائع کروایا تھا۔ یہ اکیڈمی انھیں دس ہزار روپے ماہانہ امداد دے کر ایک طرح سے ان کی کفالت بھی کررہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں دہلی اردو اکادمی کی گورننگ کونسل کا ممبر تھا اور پروفیسر اختر الواسع اس کے وائس چیئرمین تھے تو علامہ اسرار جامعی کو طنزومزاح کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ وہ بہار کی جس مٹی سے اٹھے تھے وہاں کی اردو اکیڈمی نے انھیں کبھی کوئی اعزاز نہیں دیا۔
اسرار جامعی ایک آ سودہ اور خوشحال خانوادے کے فرد تھے اور پٹنہ میں ان کی کروڑوں روپے کی جائیداد تھی لیکن گھریلو جھگڑے اور چھوٹی بھائی کی نفسیاتی الجھنوں نے انھیں دربدری پر مجبور کیا۔ کوئی تیس برس پہلے وہ دہلی چلے آ ئے اور اسی جامعہ کے علاقے میں مقیم ہوئے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اور ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب جیسے لوگوں کے آ گے زانوئے تلمذ طے کیا تھا مگر ان کی بے باکی اور مصلحت ناپسندی نے بہت سے لوگوں سے دور بھی کیا تھا۔ جہاں چاپلوسی اور حاشیہ برداری ضروری ہوتی ہے وہاں وہ اپنی بےلاگ شاعری کا ہنر آ زماتے تھے جس کا ثبوت دہلی پر ان کی طنز یہ نظم بھی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی اسرار جامعی نے شادی نہیں کی تھی اور ان کی بہت سی مشکلات اسی کا نتیجہ تھیں۔ انھیں دیکھ کر مجھے مشہور پاکستانی شاعر اور نقاش صادقین کی درج ذیل رباعی یاد آ تی تھی جس میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں غالب اکیڈمی میں خود ان ہی کی زبانی سنی تھی۔
وہ مطلع ہستی پہ ہویدا نہ ہوئی
میں اس پہ فدا وہ مجھ پہ شیدا نہ ہوئی
میں صاحب اولاد بھی ہوسکتا تھا
مگر اولاد کی والدہ ہی پیدا نہ ہوئی 
علامہ اسرار جامعی کو زمانے سے  ڈھیروں شکایات تھیں۔ ظاہری ٹیپ ٹاپ اور بناوٹ کے اس شہر میں کم ہی لوگ انھیں "لفٹ" دیتے تھے۔ وہ ایک سادہ مگر پرکار انسان تھے اور بہترین شاعرانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ خاندانی شرافت اور وضع داری میں بھی وہ طاق تھے۔ ان کا قریبی تعلق مشہور سیاسی قائد اور سابق سفارتکار زید شہاب الدین مرحوم سے تھا جنہیں وہ اپنا پھوپھا بتاتے تھے۔
ادھر کافی دنوں سے مجھے ان سے نیاز حاصل نہیں ہوا تھا مگر فون پر اکثر باتیں ہوتی تھیں۔ لیکن ادھر کچھ عرصہ سے ان کا فون سوئچ آ ف آ رہا تھا اور میری تشویش بڑھ رہی تھی۔اسی اثناء میں ان کے انتقال کی خبر آ ئی ہے تو قلق اس بات کا ہے کہ میں ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکا۔  پورے ملک کی طرح دہلی میں بھی لاک ڈاؤن ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ شعبہ اردو جامعہ کے جن اساتذہ اور طلباء نے ان کے جنازے میں شرکت کی انہیں بھی پولیس سے اجازت لینی پڑی۔ ان کی تعداد ایک درجن کے قریب تھی۔ یہی لوگ ان کی خبر گیری بھی کرتے تھے۔ 
علامہ اسرار جامعی نہ جانے کیوں مجھے بہت عزیز رکھتے تھے اور اکثر خود میرے غریب خانے کی زینت بڑھاتے تھے۔
میری ان سے شناسائی کوئی ایک چوتھائی صدی پر محیط ہے۔ انھوں نے میرے اخبار کے لئے یومیہ قطعات بھی لکھے۔ ان کے انتقال سے دہلی کی ادبی تقریبات کی ایک اور نشست خالی ہوگئی ہے۔
(معصوم مرادآبادی کے فیس بُک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ)

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری