آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 13 April 2020

Dawat e Inquilab - NCERT Solutions Class 9 Urdu

دعوتِ انقلاب
وحید الدین سلیم

کیا لے گا خاک ! مرده افتاده بن کے تو
طوفان بن، کہ ہے تری فطرت میں انقلاب

کیوں ٹممٹائے کرمکِ شب تاب کی طرح!
بن سکتا ہے تو اوج فلک پر اگر شہاب

وہ خاک ہو، کہ جس سے ملیں ریزہ ہائے زر
وہ سنگ بن کہ جس سے نکلتے ہیں لعل ناب

چڑیوں کی طرح دانے پر گرتا ہے کس لیے
پرواز رکھ بلند، کہ تو بن سکے عقاب

وہ چشمہ بن کہ جس سے ہوں سرسبز کھیتیاں
رہرو کو تو فریب نہ دے صورتِ سراب


خلاصہ:
جیسا کہ نام سے ظاہر ہےاس قطعہ میں شاعر وحید الدین سلیم نے  انقلاب کی دعوت دے کر انسان کے اندر تحریک اور حرکت عمل کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ بن کر تو کچھ نہیں کر پائے گا اس لیے کہ تو فطرتاً انقلابی ہے اس لیے تجھے چاہیے کہ تو طوفان بن جا ۔ رات میں چمکتے ہوے جگنو کی طرح ٹمٹما نے کے بجا ئے تو آسمان پر شہاب کی ماند کوند ۔یعنی شاعر اپنے بچوں کو جگنو نہیں بلکہ بجلی بنانا چاہتا ہے وہ ان کی سوچ کو انقلابی بنانا چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ تو اگر خاک بھی بنتا ہے تو ایسی خاک بن جس سے سونا نکلتا ہے اور اگر پتھر بنا ہے تو ایسا پتھر بن جس سےلعل ناب یعنی سرخ قیمتی پتھر نکلتے ہیں ۔ شاعر بچوں ے اندر مزید حوصلہ پیدا کرنے کے لیے کہتا ہے کہ چڑیوں کی مانند بکھرے ہوئے دانوں پر مت گرو بلکہ عقاب بن اپنی پرواز بلند رکھو اور اپنا شکار خودجھپٹ کر حاصل کرنے کی عادت ڈالو ۔ ایک ایسا چشمہ بن جا ؤجس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہوں ۔ تم ایسا صحرا نہ بنو جومسافروں کو سراب کی مانند فریب دیتا ہے۔
 مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قطعے میں انسانی قوت اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی کوششوں سے ہرمشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔
قطعہ
رباعی کی طرح قطعہ بھی عام طور پر چار مصرعوں کی نظم ہوتا ہے۔ لیکن رباعی اور قطعے میں دو باتوں کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ رباعی کے لیے ایک بحر اور اس کی کچھ شکلیں مخصوص ہیں اور رباعی کے تین مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے چاروں مصرعے بھی ہم قافیہ ہو سکتے ہیں اس کے برخلاف قطعے کی شرط یہ ہے کہ اس میں مطلع نہیں ہوتا، لیکن اس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم قافیہ نہیں ہوتے۔ قطعہ کلاسیکی شاعروں کے یہاں عموماً غزل کے اشعار میں ملتا ہے ۔ قطعہ بند اشعار غزل کے اندر دو بھی ہو سکتے ہیں اور دو سے زائد بھی لیکن آج کل کے زیادہ تر شعرانے قطعے کو رباعی کی طرح صرف چار مصرعوں تک محدود کر دیا ہے۔
وحید الدین سلیم
(1859ء تا 1928 ء)
وحید الدین سلیم ماہر لسانیات، صحافی ، مترجم ، کامیاب مصنف اور شاعر تھے۔ انھوں نے پہلے منتوں اور پھر سلیم تخلص اختیار کیا۔ پانی پت میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ کم عمری میں والد کا انتقال ہوگیا۔ 1882ء میں مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد لاہور کے اورینٹل کالج میں تعلیم جاری رکھی ۔ طالب علمی کا زمانہ غربت میں بسر ہوا۔ ایک دوست کی وساطت سے ایجرٹین کالج بھاولپور میں السنہ مشرقیہ کے استاد کی جگہ پر ان کا تقرر ہو گیا۔ حالی نے 1894 ء میں انھیں علی گڑھ بلوایا اور سرسید سے ملاقات کروائی ۔ 1907ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی ادارت کے لیے انھیں مدعو کیا گیا۔ قیام علی گڑھ میں وحیدالدین سلیم نے انجمن مترجمین قائم کی تھی جس کا مقصد انگریزی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔ جب حیدر آباد میں جامعہ عثمانیہ قائم کی گئی تو نصاب کی کتابوں کو طالب علموں کے لیے اردو میں ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ راس مسعود اور بعض دوسرے حضرات نے سلیم کو حیدر آباد بلوالیا۔ یہاں ترجمے کے کام کو آگے بڑھانا تھا۔ جس کے لیے وضع اصطلاحات کی کمیٹی بنائی گئی ۔ اس میں مختلف علوم کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے سلسلے میں اصطلاحات سازی کی ضرورت پیش آئی۔ جب شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تو انھیں پروفیسر مقرر کردیا گیا۔ آخری زمانے میں صحت کی خرابی کے باعث ملیح آباد چلے گئے ۔ وہیں ان کا انتقال ہوا۔

لفظ ومعنی
افتاده : گرا پڑا ہوا
کرمک شب تاب : جگنو
اوج : بلندی، شان، عروج
شہاب : ستارہ کا نام
لعل ناب : گہرے سرخ رنگ کا قیمتی پتھر
عقاب : چیل کی شکل کے ایک بڑےپرندے کا نام
سُراب : ریگزار جس پر دور سے پانی کا گمان ہو، مطلب فریب نظر کا دھوکا

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں انسانی قوت اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی کوششوں سے ہرمشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. انقلاب سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: انقلاب سے شاعر کی مراد زندگی اور حرکت و عمل کا پیدا کرنا ہے۔ وہ کمزوروں اور محکوموں کو کو طوفان بننے کا مشورہ دیتا ہے اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کی  فطرت میں انقلاب ہے۔

2. انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟
جواب: شاعر کی نگاہ میں انسان میں انقلاب پیدا کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ انسان آسمان پر شہاب کی مانند چمک سکتا ہے تو پھر وہ اپنے لیے جگنو کی طرح ٹمٹمانا کیوں پسند کرے۔

3. شاعرانسان کو کس طرح کا چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے؟
جواب: شاعر انسان کو وہ چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے جس کے دوسروں کو فیض پہنچےیعنی اس کی ذات دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو جیسے کہ بہتا ہوا پانی کھیتوںکو سیراب کر کے انہیں سبز و شاداب بناتا ہے اسی طرح اس سے بھی دوسروں کو فائدہ ہو۔

4. شاعرانسان کو چڑیا بننے کے بجائے عقاب بننے کی ترغیب کیوں دے رہا ہے؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ تم چڑیا نہ بنو جو کہ دانوں پر بھوکوں کی طرح گر پڑتی ہے بلکہ ایسا عقاب بنو جس کی پرواز بلند ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقاب اور چڑیے کی مثال دے کر شاعر انسانوں کو بلند ہمتی اور بلند نظری کی ترغیب دے رہا ہے۔ 

عملی کام
* اس قطعے کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* اس قطعے کے آخری تین اشعار خوشخط لکھیے ۔

* درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے:
اوج : پست
مرده : زندہ
فلک : زمین
سرسبز : خس و خاشاک

* اس قطعہ میں شاعر نے جن الفاظ کے ساتھ اضافت کا استعمال کیا ہے، ان کی نشاندہی کیجیے۔
مردۂِ افتادہ (گرے پڑے مردے کی طرح)
کرمکِ شب تاب(جگنو کی طرح)
اوجِ فلک(آسمان کی بلندی کی مانند)
لعلِ ناب(گہرا سُرخ پتھر)
 (چھلاوے کی مانند) صورتِ سُراب
(یہاں معنی آپ کو سمجھانے کے لیے لکھے گئے ہیں۔)

کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری