(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
غزل
میرتقی میر
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونس ہجراں
سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
پر سخن تا بہ لب نہیں آتا
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر
(1722ء - 1810ء)
میرتقی میر آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درویش صفت انسان تھے۔ میر کی نوعمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا پھر میں دہلی آگئے اور یہاں طویل عرصے تک رہے۔ یہاں خان آرزو کی محبتوں نے ان کے ذوق شعراورعلم کو ترقی دی اور بہت جلد وہ دہلی کے نمایاں شعر میں گئے جانے لگے۔ دلی میں انھوں نے اچھے اور برے دونوں طرح کے دن گزارے، اپنے مربیوں کے ساتھ کچھ وقت راجپوتانے میں گزارا اور بالآخر 1782ء کے قریب وہ لکھنؤ آگئے ۔ نواب آصف الدولہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے سے لے کر آج تک تمام شعرا اور ناقدین نے ان کی شاعران عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ انھیں خدائے تین کہا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انھیں اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔
میر کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں اتنی ہی خوبی سے جگہ دی ہے جس خوبی سے وہ رنج وغم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بظاہر سادہ ہے لیکن اس میں فکر کی گہرائی ہے۔ ان کے شعروں کو چھوتے ہیں ۔ میر اپنی شاعری میں لفظوں کو نے نئے رنگ سے استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نئے نئے معنی پیدا کرتے ہیں ۔ میر نے بر می گن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا اصل میدان غزل او مثنوی ہے۔ اردو میں ان کا خینم گلیات شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے ذکر میز کے نام سے فارسی زبان میں آپ بیتی لکھی اور نکات الشعرا کے نام سے اردو شاعروں کا ذکر چلکھا جسے اردو شعرا کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
لفظ ومعنی
اشک | : | آنسو |
وہ | : | یہاں بمعنی محبوب |
لوہو | : | (لہو ) خون |
مونس | : | دوست ، دل کو تسلی دینے والا |
ہجراں | : | جدائی |
گریہ | : | آنسو |
ہمدم | : | ساتھی |
سخن | : | بات |
غبارمیر | : | میر کی خاک (یعنی مرکر خاک ہو جانے کے بعد میر کا جسم غبار بن کر ہوا میںاڑ رہا ہے) |
غور کرنے کی بات
* میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
* میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
* میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
* یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔
* میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
* میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
* میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
* یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔
سوالوں کے جواب لکھیے
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:
2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب:
3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:
2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب:
3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔
عملی کام
* استاد کی مدد سے غزل کو صحیح تلفظ اور مناسب ادائیگی سے پڑھیے۔
* اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
* اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔
* اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
* اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔
کلک برائے دیگر اسباق |
0 comments:
Post a Comment