آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 13 April 2020

Ek Aarzu - Muhammad Iqbal - NCERT Solutions Class IX Urdu


(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)

ایک آرزو
محمد اقبال

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

 شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 
 ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
 دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھوپڑا ہو

 آزادفکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں
 دنیا کے غم کا دل سے کا نٹا نکل گیا ہو

 لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں 
 چشمے کی شورشوں میں باجا سابج رہا ہو

گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجکو جہاں نما ہو

 ہو ہاتھ کا سرہانا سبزہ کا ہو بچھونا!
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

 مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
 ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

 صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
 ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

 ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ 
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو 

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ 
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی  ٹہنی
 جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

 راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو

 بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب  آسماں پر ہر سو بادل  گھرا  ہوا ہو

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذّن 
میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو

 کانوں پر ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں!
 روزن ہی جھونپڑی کا مجکو سحر نما ہو

 پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
 رونا   مرا  وضو ہو، نالہ مری دعا ہو!

 اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
 تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

ہر درد مند   دل کو رونا  مرا    رُلا    دے
 بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگادے

محمد اقبال
(1877ء - 1938ء)
علامہ ڈاکٹر مہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے سیالکوٹ ہی میں امتیاز کے ساتھ انٹرنس کا امتحان پاس کیا پھر لاہور میں اعلی تعلیم پائی ۔ کچھ دن بعد وہ یوروپ گئے اور انگلستان سے قانون کی اور جرمنی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی سے اقبال شعر کہنے لگے تھے۔ اقبال نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی اور داغ سے اصلاح لی۔ آگے چل کر انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے پیغام اور فکر کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ حرکت و عمل اور خودی کی تعلیم دیتے ہیں اور ان خوبیوں کو انسانیت کی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان کے کلام میں موسیقیت اور زور بیان ہے۔ انھوں نے لفظوں کے انتخاب میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی لیے ان کے اشعار میں خوش آہنگی بہت ہے۔ اردو میں ان کے مجموعے بانگ درا ، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ہیں۔ فارسی میں ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔
اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا ہندوستانی شاعر کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ہندوستانیوں اور خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی اور تہذیبی غلامی سے آزاد کرایا اور یورپ کے علوم سے مرعوب ہونے کے بجائے یورپ سے استفادہ کرنا سکھایا اور یہ بتایا کہ یورپ کی تہذیب مادہ پرستی اور بے انصافی پر مبنی ہے اور اسے بہت جلد زوال آجائے گا۔
اقبال کی شاعری میں فلسفۂ تغزل، ڈراما، پیغامِ عمل اور مذہب اسلام سب اس طرح گھل مل کر ایک ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی طرح کی بےنظیر چیز بن گئی ہے۔

خلاصہ:
اقبال نے اپنی نظم ’ایک آرزو‘ کے میں اپنی خواہشات کا ذکر کیا ہے اور اپنے دردمند دل کی داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا سے اکتا چکے ہیں اور گوشہ تنہائی کی تلاش میں ہیں۔ وہ ایک ایسی جگہ جانا چاہتےجہاں سکون ہی سکون ہو اور ایسی سکون کی جگہ پہاڑ کے دامن ہی میں ہو سکتی ہے اور وہیں انسان قدرت کے آغوش میں ہر فکر سے بے نیاز ہو کر رہ سکتا ہے۔ اقبال ایک ایسی پرسکون جگہ کی تلاش میں ہیں جہاں وہ سکون سے قدرتی ماحول میں زندگی کا لطف اٹھا سکیں۔اقبال کی یہ خواہش ہے کہ پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہو، جہاں وہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوں، ہر فکر سے آزاد ہوں ، جانوروں اور پرندوں سے قربت حاصل کریں۔ قدرتی نظاروں کا جی بھر کے لطف لے سکیں اور اس پر سکوت ماحول میں اپنے معبودحقیقی کی بارگاہ میں اپنے نالہ ہا ۓ نیم شبی پہنچا سکیں۔ایسی جگہ ہو جہاں چاروں طرف سبزہ زار ہو۔ اور وہاں ایسی تنہائی ہو کہ جس میں محفل بھی شرما جائے یعنی وہاں اس تنہائی میں پرندوں کی چہچہاہٹ ہو۔بلبل مجھ سے اتنی مانوس ہو کہ اسے میرا کوئی خوف نہ ہو۔شاعر نے اس نظم میں قدرتی مناظر کی مکمل تصویر کشی کی ہے جو قاری کو موہ لیتی ہے۔وہ کہتے ہیں میری جھونپڑی کا روشن دان ہی مجھے صبح ہونے کی گواہی دے اور ۔میری زبان کوئل کی طرح صبح کی اذان کی موذن ہو۔ می شبنم سے وضو کروں اور میرا چہرہ میرےنالوں اور آنسوؤں سے تر ہو۔ اقبال چاہتے ہیں کہ ان کی یہ آرزو نہ صرف اُن کی بلکہ ہر درد مند دل کی آواز بنے۔اور جو لوگ بھی خواب غفلت میں ہیں وہ بیدار ہوجائیں۔
مشق
الفاظ ومعانی
شورش : شور و غل، اتھل پتھل
سکوت : خاموشی
تقریر : بیان، بات
عزلت : تنہائی ، گوشہ
سرود : گانا، نغمہ
جہاں نما : جس میں یا جس سے تمام دنیا نظر آئے
جلوت : محفل ، لوگوں کی موجودگی
خلوت : تنہائی
دل فریب : دل کو لبھانے والا ، من موہن
قبا : پوشاک
ہم نوا : ہم آواز
روزن : سوراخ، روشن دان
سحر نما : صبح کا دیدار کرانے والا
ناله : فریاد، رونے کی آواز
درا : قافلے کے روانہ ہونے سے پہلے بجنے والا گھنٹہ ، جرس

غور کرنے کی بات
 *  کسی شعر یا شعر کے کسی مصرعے میں دو متضاد الفاظ کے استعمال کو صنعت تضاد کہتے ہیں ۔ اس نظم میں کئی اشعار ایسے ہیں جن میں دو متضاد الفاظ آئے ہیں ۔ جیسے
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو 

ہو   ہاتھ کا سر ہانا، سبزہ کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

*  ’جہاں نما‘ ایک مرکب ہے جو ’جہاں‘ بمعنی دنیا اور ’نما‘ بمعنی دکھانے والا ، سے مل کر بنا ہے۔
جب دو مختلف الفاظ ایک ساتھ مل کر ایک ترکیب بتاتے ہیں تو اسے ’مرکب‘ کہتے ہیں۔
*  شعر میں کسی تاریخی واقعے، مشہور شخصیت یا شے کا ذکر کیا جائے تو اسے صنعت تلمیح کہتے ہیں۔ ’ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو‘ اس مصرعے میں صنعت تلمیح  کا استعمال کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیم ایرانی بادشاہ جمشید کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں وہ پوری دنیا کو دیکھ لیتا تھا۔ یہاں کلی کو استعارتاً ساغر کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور ساغر کے لیے جہاں نما کی تلمیح سے مدد لی گئی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے 
1. شاعر نے تنہائی کی کیا خوبیاں بیان کی ہیں؟ وضاحت کیجیے۔
جواب:

2. پہاڑ کے دامن میں وہ کون سی چیز میں ہیں جن میں شاعر کو خاص دلچسپی ہے؟
جواب:

 3. شاعر کی آرزو کے مطابق رات کے مسافروں کی آمد کیا ہوگی؟
جواب:

4. آخری شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟
جواب:

عملی کام
* نظم ایک آرزو بلند آواز سے پڑھیے۔
*  اقبال کے مجموعے بانگ درا میں کئی نظمیں بچوں کے لیے ہیں۔ آپ ان نظموں کو تلاش کر کے پڑھیے۔
ایک پہاڑ اور گلہری
*  درج ذیل اشعار کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذّن
 میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو 


کانوں پر ہو نا میرے دیر و حرم کا احساں
 روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحرنما ہو


 مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

* نظم سے ایسے دو اشعار تھے جن میں تشبیہہ کا استعمال ہوا ہے۔

* درج ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
جہاں نما : جس میں یا جس سے تمام دنیا نظر آئے : جمشید اپنے جہاں نما میں دنیا دیکھ رہا تھا۔
سحر نما : صبح کی مانند : میری جھونپڑی کا روشن دان میرا سحر نما ہو۔
ہم نوا : ہم آواز : اقبال بلبل کے ہم نوا بننے کے آرزو مند تھے۔
دل فریب : دل کو لبھانے والا : کوئل دل فریب آواز کی مالک ہے۔
جلوت : محفل : جلوت کی ہوس نے رقاصہ کو رسوا کردیا
خلوت : خلوت : رضیہ خلوت پسند تھی۔

کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری