غزل
ڈاکٹر کلیم عاجز
وہ چاہے ۔ کوئی بلا سے نہ چا ہے یا چاہے
اسی کو کہیے سُہاگن جسے پیا چاہے
کسے مجال ہے مسند کو بوریا چاہے
وہ دینے والاہے دے جس کو جو دیا چاہے
بغیر اجازت پیرمغاں ہے وہ بھی حرام
شراب کیا کہ اگر زھر بھی پیا چاہے
وہ محترم نہ رہے گا کسی کی نظروں میں
تری نظر جسے بے آبرو کیاچاہے
یہ دور وہ ہے، کسی حال میں بھی چین نہیں
گریباں چاک ہو، دامن اگرسیاچاہے
گذر کے مرحلۂ دارسے بھی دیکھ لیا
یہ کام سہل ہے ہمّت اگر کیا چاہے
طبیب عشق کا یہ نسخۂ مجرّب ہے
مرے کسی کی محبت میں گرجیا چاہے
غزل میں عکس رخ انقلاب رکھتا ہوں
نگاہ لائے جو یہ آئینہ لیا چاہے
ڈاکٹر کلیم عاجز
وہ چاہے ۔ کوئی بلا سے نہ چا ہے یا چاہے
اسی کو کہیے سُہاگن جسے پیا چاہے
کسے مجال ہے مسند کو بوریا چاہے
وہ دینے والاہے دے جس کو جو دیا چاہے
بغیر اجازت پیرمغاں ہے وہ بھی حرام
شراب کیا کہ اگر زھر بھی پیا چاہے
وہ محترم نہ رہے گا کسی کی نظروں میں
تری نظر جسے بے آبرو کیاچاہے
یہ دور وہ ہے، کسی حال میں بھی چین نہیں
گریباں چاک ہو، دامن اگرسیاچاہے
گذر کے مرحلۂ دارسے بھی دیکھ لیا
یہ کام سہل ہے ہمّت اگر کیا چاہے
طبیب عشق کا یہ نسخۂ مجرّب ہے
مرے کسی کی محبت میں گرجیا چاہے
غزل میں عکس رخ انقلاب رکھتا ہوں
نگاہ لائے جو یہ آئینہ لیا چاہے
(بہ شکریہ المجیب)
0 comments:
Post a Comment