غزل
نظیر اکبر آبادی
اس کے شرار حسن نے جلوہ جو اک دکھادیا
طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چارسو، ٹھہری اسی کے روبرو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا
میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا!! اِدھر گھٹا! لیا!، !چاہا !!اُدهر!بڑھا! دیا
تیشے کی کیا مجال تھی، یہ کہ تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا
نکلے جو راهِ دَیر سے اک ہی نگاہ مست میں
گبر کا صبر کھو دیا، بُت کو بھی بُت بنا دیا
0 comments:
Post a Comment