آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday, 15 April 2020

Guzra Hua Zamana - Sir Syed - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Guzra hua Zamana by Sir Syed Ahmad Khan Chapter 1 NCERT Solutions Urdu
گزرا ہوا زمانہ
سرسید احمد خاں

برس کی اخیر رات کو ایک بڈّھا اپنے اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے ، رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے ، گھٹا چھا رہی ہے بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے، آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے ۔ بڈّھا نہایت غمگین ہے مگر اس کاغم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسوبھی بہے چلے جاتے ہیں ۔
پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے، اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے، جب کہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپے،اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لیے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یادآتے تھے۔ وہ زیادہ غمکین ہوتا تھا اور بے اختیار چلاّ اٹھتا تھا ”ہائے وقت، ہائے وقت! گزرے ہوئے زمانے! افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔“
پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل بھرا بھرا بدن ، رسیلی آنکھیں ، موتی کی لڑی سے دانت ، امنگ میں بھرا ہوا دل، جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتےتھے، نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا ”اُہ ابھی بہت وقت ہے“ اور بڑھاپے کے آنے کا کبھی خیال بھی نہ کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی  اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لیے تیار رہتا ۔ آه وقت گزر گیا، آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ”ابھی وقت بہت ہے۔“
یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اورٹٹول ٹٹول کرکھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی ، د یکھا کہ رات ویسی ہی ڈراونی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے، ہولناک آندھی چل رہی ہے، درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں، تب وہ چلا کر بولا ”ہائے ہائے میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراونی ہے جیسی یہ رات“ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں ۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے۔ یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں سے یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمھارے ہی بھلے کے لیے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہے۔ دوست آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی ، بہن ، دوست آشنا کے ساتھ برتی تھیں ۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جا تا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا، اب کیوں کر اس کا بدلہ ہو!
 وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑ ا اور ٹکرا تا لڑکھڑاتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پن یاد آیا جس میں کہ نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن، نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش ، اس نے اپنی اس نیکی کے زمانے کو یاد کیا جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا ، نمازیں پڑھنی ، حج کرنا ، زکوٰة دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنویں بنوانا یاد کر کر اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کو جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کی جن سے بیعت کی تھی اپنی مد دکو پکارتا تھا مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں ، مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور یا پھر ویسے ہی جنگل ہیں ۔ کنویں اندھے پڑے ہیں ۔ نہ پیر اور فقیر ، کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ یہ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی ، اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا ”ہائے وقت ، ہائے وقت میں نے تجھ کو کیوں کھودیا؟“
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے، آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے، تارے نکل آئے ہیں، ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیاہے۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ  یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آ گئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے پوچھا کہ تم کون ہو، وہ بولی کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں ۔ اس نے پوچھا کہ تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے ۔ وہ بولی ہاں ہے، نہایت آسان پر بہت مشکل ۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا کہ ”والله لا از ید و لاانقص‘‘ ادا کر کر انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے اس کی میں مسخر ہوتی ہوں ۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے، انسان ہی ایسی چیز ہے جو اخیر تک رہے گا ۔ پس جو بھلائی کہ انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل درنسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز ، روزہ ، حج، زکوٰة  اسی تک ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کردیتی ہے۔ مادّی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں، جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے انسان کی بھلائی میں کوشش کرے کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں تو دل و جان ومال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہوگئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پرمبنی تھے۔ نیک کام جو کیے تھے ثواب کے  لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کیے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آ ئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی ۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا ”ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں؟ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہوسکتا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہوگیا۔
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی، اس کو گلے لگا کر اس کی ببّی لی ۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کھڑےہوئے ۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے؟ کیوں تو بے قرار ہے؟ کس لیے تیری ہچکی بندھ گئی ہے؟ اُٹھ منھ ہاتھ دھو  کپڑے پہن ، نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈّھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا کہ اس پشیمان بڈّھے نے کیا ، بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
یہ سن کر وہ لڑ کا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا کہ او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے، میں کبھی اس بڈّھے کی طرح نہ پچھتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ اوخدا، او خدا تو میری مدد کر، آمین۔
پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچّو، اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تا کہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے، آمین۔

انشائیہ
انگریزی میں انشائیہ اور مضمون دونوں کے لیے Essay کی اصطلاح  رائج ہے۔ انشائیہ ادیب کی ذہنی اور ادبی اسلوب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انشائیہ نگار زندگی کی عام یا خاص بات یا کیفیت کو اپنی افتاد طبع ،علمیت اور شگفتہ نگاری سے پرلطف انداز میں بیان کردیتا ہے۔ ابتدا میں تمثیلی انشائیےبھی لکھے گئے۔ انہیں رمزیے( Allegory) کہا جاتا ہے۔ ان کی بہترین مثال محمد حسین آزاد کی کتاب ”نیرنگ خیال“ ہے۔ سرسید ،شبلی ، حالی اور خواجہ حسن نظامی سے لے کر نیاز فتح پوری ، سید عابد حسین، خواجہ غلام السیدین، محمد مجیب ، رشید احمد صدیقی اور ان کے بعد کے لکھنے والوں کی بعض تحریریں انشائیہ بھی کہی جاسکتی ہیں اور مضمون بھی ۔ کنہیالال کپور، مشتاق احمد یوسفی ، یوسف ناظم، وزیرآغا اورمجتبیٰ حسین وغیرہ ہمارے زمانے کے ممتاز انشائیہ نگار ہیں۔

سرسید احمد خاں
(1898 – 1817)

سید احمد خاں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839ء میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اورمختلف مقامات پر کام کیا۔ 1862ء میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے ایک انجمن ”سائنٹفک سوسائٹی“ کے نام سے بنائی ۔ اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علوم ، خاص کر سائنس کے علوم کا مطالعہ کیا جائے اور ان علوم کو ہندوستانیوں میں عام کیا جائے ۔ 1869ء میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے۔ واپس آ کر انھوں نے انگریزی کے علمی اور سماجی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ نکالنا شروع کیا۔
انگلستان سے واپس آ کر سید احمد خاں نے علی گڑھ میں 1875ء میں ایک اسکول کھولا ۔ یہ اسکول 1878ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ اور پھر 1920 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔
1878ء میں سید احمد خاں کو ’سر‘ کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں سرسید کے نام سے جانتے ہیں ۔ سرسید آخر عمر تک قومی کام کاج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں ”آثار  الصنادید“،   ”اسباب بغاوت ہند“ اور ”سرکشی ضلع بجنور“ خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں ۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سائنس، فلسفه، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔
جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرسید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو بھی فروغ دیا۔ لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چندصفحات میں کام کی بات کہنے کا فن سرسید نے عام کیا۔ سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے اور ان کی نثر میں، وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا۔
Guzra hua Zamana by Sir Syed Ahmad Khan Chapter 1 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ و معنی

مکتب : مدرسہ
کج خلقی : مزاج کا کڑوا پن، روکھا پن
بیعت کرنا : مرید بننا، اطاعت کا عہد لینا
تسخیر : قابو میں کرنا، فتح کرنا
بدوی : عرب کے وہ باشندے جو گھر نہیں بناتے، ریگستانوں میں رہتے ہیں اور زیادہ تر زندگی اونٹوں پر یا خیمے میں گزارتے ہیں۔
واللہ لاازیدولاانقص : (عربی فقرہ) خدا کی قسم نہ میں زیادہ کروں گا اور نہ کم
سعی : کوشش
ساعی : کوشش کرنے والا
مبنی : منحصر
پشیمان : شرمندہ، پچھتانے والا

 غور کرنے کی بات
* سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے۔ ان کی نثر میں وہی سنجیدگی ، وزن اور وقار ہے جو ان کے کردار میں تھا۔
* اس مضمون میں سر سیّد کا اسلوب بڑا افسانوی ہے۔ آخری اقتباس سے قبل یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سرسید کی کہانی کا ہیرو کوئی بوڑھا نہیں بلکہ ایک کم عمر لڑکا ہے۔
* سرسید وقت کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اپنی تحریروں کے ذریعے وہ قوم کےنوجوانوں کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے رہتے تھے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
 1. بوڑھا اپنی جوانی کے زمانے کو کن لفظوں میں یاد کرتا ہے؟
جواب: بوڑھا اپنی جوانی کے زمانے کو یاد کرتاہے اسے اپنا سرخ چہرہ، ڈیل ڈول، بھرا بھرا بدن، رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل، جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی ہیں۔
 2. سرسید نے برس کی اخیر رات کا ذکر کس طرح کیا ہے؟
جواب: سر سید نے برس کے اخیر رات کا ذکر اس کا اندھیراپن، ڈراؤناپن، رات کی ہولناکی اور اس کی خوفناکی بتلا کر کیا ہے مثلاً جس میں تیز آندھیاں چل رہی ہوں بجلیاں کڑ کڑا رہی ہوں اور چاروں طرف  خوفناک اندھیرا ہی  اندھیرا ہو۔
3. بوڑھے کو جو خوبصورت دلہن نظر آئی، اس سے مصنف کی کیا مراد ہے؟
جواب: خوبصورت دلہن سے مصنف کی مراد ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہے۔
4. ماں نے لڑکے کو کیا نصیحت کی؟
جواب: ماں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا کہ اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا کہ تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
5. لڑکے نے کیا عہد کیا؟
جواب: لڑکا اپنی ماں کی نصیحت سننے کے بعد پلنگ سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا‌ کہ یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے اپنا خوبصورت چہرہ مجھکو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔
 6. آخری پیراگراف میں سرسید نے قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: سر سید احمد خان اپنی قوم کے نوجوانان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اۓ میری قوم کے نوجوان بچوں اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں تمہیں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتانا  پڑے ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی کے لیے سعی کرے۔

عملی کام
سبق کی بلندخوانی کیجیے۔
مضمون میں نیکی بدی، آسان مشکل جیسے متضاد الفاظ ایک ساتھ استعمال کیے گئے ہیں ۔ آپ اسی طرح کے کچھ متضادالفاظ سوچ کر لکھیے۔
جواب:روشنی تاریکی، خوبی خرابی، اچھا برا،جنت جہنم، اونچ نیچ،

 مندرجہ ذیل محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
 دل پاش پاش ہونا: اپنے گناہوں کو یاد کر بوڑھے کا دل پاش پاش ہوگیا۔
 ہچکی بندھنا: بوڑھے کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا: بوڑھا اس حسین عورت کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔

 مندرجہ ذیل لفظوں میں سے مذکر اور مونث الگ الگ کیجیے:
اندھیرا،  زندگی،  آشنا،  جوبن،  کھڑکی،  گھٹا،  بجلی،  بادل،

مذکر: اندھیرا، آشنا، جوبن، بادل
مونث: زندگی،کھڑکی،  گھٹا،  بجلی
خلاصہ:
سرسید کا انشائیہ’ گزرا ہوا زمانہ ‘ ایک ایسے بوڑھے کی کہانی بیان کرتا ہے جسے اپنی پوری زندگی کو بیکار کے کاموں میں گنوا دینے کا افسوس ہے۔اس انشایئے میں انہوں نے ایک ایسے انسان کےدرد و کرب کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ہر انسان کی نظروں کے سامنے اس کی اپنی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے۔ وہ اس بوڑھے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے جسے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا ہے۔ برس کی آخری رات ہے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور وہ بوڑ ھا اپنی زندگی کے بیتے ہوئے دنوں کا حساب کر رہا ہے۔ اس بوڑھے کواپنا بچپن یاد آتا ہے اور اس کے رونے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بچپن کی شرارتیں روٹھنا ،اسکول جانا اورچھٹی کے وقت خوشی خوشی گھر واپس آنا۔ اپنے ہم جماعتوں کی یاد یں ایک ایک کر کے اسے ستارہی ہیں۔اُسے شدّت سے اس بات کا احساس ہے کہ اس نے اپنے بچپن کو فضول کے کاموں میں گنوا دیا ہے۔اپنا سارا وقت اس نے کھیل کود میں ضائع کردیا ہے۔ پھر اسے جوانی کی یادیں ستاتی ہیں ۔ ان میں بھری راتیں اور جوانی کے دن یاد آتے ہیں۔ ماں باپ کی نصیحتیں یاد آتی ہیں اور اپنالا ابالی پن یا دآ تا ہے۔ ساتھ ہی اسے وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اس کے پاس ندامت اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ اسے اپنے ماں باپ ،بھائی بہن، دوست آشنا، سب یاد آتے ہیں۔ جیسے اس سے کہہ رہے ہوں دیکھو ہم تمہیں کتنا سمجھاتے تھے مگر تم نے ہماری باتوں پر توجہ نہ دی ۔ اسے اپنی بے مروتی اور کج خلقی بھی یاد آتی ہے۔ جوانی سے اس کی یادیں ادھیڑ عمر میں پہنچ جاتی ہیں ۔ جہاں اس کی طبیعت قدرے نیکی کی طرف مائل ہوتی تھی ۔ عمر کی اس منزل میں کئے ہوئے کچھ نیکی کے کام سے یاد آتے ہیں اورتسلی ہوتی ہے کہ شاید یہی کام اس کی عاقبت سنوار دیں مگر اسے اپنے ہی کام ناکافی لگنے لگتے ہیں اور وہ پھر چلا اٹھتا ہے ہائے وقت ہائے وقت۔ اچانک اس کے سامنے ایک خوبصورت دلہن آجاتی ہے وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے ا اور حیران بھی ہوتا ہے۔ پوچھنے پر وہ اسے بتاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں اور مجھے حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال ہی کام آتے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے کانوں میں لوگوں کی باتیں کرنے کی میٹھی میٹھی آوازیں آئیں ۔ دیکھا تو اس کی ماں اسے جگا رہی تھی اور بھائی بہن پاس کھڑے تھے۔ اس نے دیکھا ہوا خواب ماں کو سنایا اور پرجوش انداز میں پلنگ سے اتر ا، کہنے لگا میر ےپاس وقت ہے میں خوبصورت دلہن کو ضرور حاصل کروں گا۔ سرسید نے اس انشائیے میں ڈرامائی رنگ اختیار کیا ہے۔ قاری آخر تک کہانی کے اختتام سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ کردار کے ساتھ اس کی آہ و فغاں میں گم ہوتا جاتا ہے اور اچانک ڈرامائی طور پر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے تو اسے حیرت اور خوشی کا ایک ملا جلا احساس ہوتا ہے۔ یہاں سرسید اس بوڑھے کے ساتھ ساتھ قاری کو یہ احساس کرا دینا چاہتے ہیں کہ وقت ابھی گزرا نہیں ہے۔وہ وقت کو غنیمت جانیں اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے کچھ نیکی کرلیں۔اس انشائیے میں سرسید نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ انھیں بھی اس بوڑھے کی طرح پچھتانا پڑے لہٰذا وہ وقت کو غنیمت جانیں اور نیکی اور لوگوں کی بھلائی کا کام کریں۔

انشائیہ ’گزرا ہوا زمانہ‘ کا مرکزی خیال لکھیں۔
گزرا ہوا زمانہ مضمون سر سید احمد خان نے لکھا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی سنجیدہ مضمون ہے جس میں سر سید احمد خان نے انسان کی ایک مکمل عملی زندگی کا تجزیہ کیا ہے اور وقت کی اہمیت اس کا صحیح استعمال اور اس کی قدروقیمت پر روشنی ڈالی ہے یعنی ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہےاور بوڑھا ہوتا ہے  پھر مر جاتا ہے۔ ماں کی گود سے گور تک اس نے جو بھی عمل کیا اس کا عملی اور شرعی جائزہ مکمل حیات زندگی میں ماں باپ بھائی بہن، دوست واحباب،یارورشتہ دار کے ساتھ اخلاق و رسوم کا جائزہ، وقت کا صحیح استعمال و اس کی قدروقیمت، اس کے گذر جانے کے بعد افسوس، غرض ایک انسان کی مکمل زندگی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کو انسانی خواب کے ذریعہ تصور کرایا ہے مزید یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے نیک اور صالح اعمال ہی باقی ہیں وقت کا صحیح استعمال اور شرعی احکام کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگ ہی اللہ کے نزدیک برگزیدہ اور قابل قبول ہیں۔

کلک برائے دیگر اسباق

4 comments:

خوش خبری