غزل
نظیر اکبر آبادی
عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں لیکن
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مرے دل نے ہنس کر
اس مزے داری سے کھایا ہے کہ جی جانے ہے
اس کی دزدیدہ نگہ نے مرے دل میں چھپ کر
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانے ہے
بام پر چڑھ کے تماشے کو ہمیں حسن اپنا
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانے ہے
اس کی فرقت میں ہمیں چرخ ستم گار نے آہ
یہ رلایا ،یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے
حکم چپی کا ہوا شب تو سحر تک ہم نے
رتجگا ایسا منایا ہے کہ جی جانے ہے
تلوے سہلانے میں گو اونگھ کے جھک جھک تو پڑے
پر مزا بھی وہ اڑایا ہے کہ جی جانے ہے
رنج ملنے کے بہت دل نے سہے لیکن نظیرؔ
یار بھی ایسا ملایا ہے کہ جی جانے ہے
0 comments:
Post a Comment