استقبال ماہِ رمضان دراصل پروفیسر شاہ حسن عثمانیؒ کا وہ خطبہ ہے جو انہوں نےمسجد ادارہ مدینة العلوم ، ذاکر نگر، جمشید پور میں دیا تھا۔ جو ایک کتابچہ کی شکل میں شائع ہوا ہے۔ آئینہ اس خطبہ کو افادۂ عام کے لیے پیش کر رہا ہے۔ اس سال مہلک کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے علما نے رمضان المبارک کی عبادات و مشغولیات کے لیے کچھ ہدایات جاری کی ہیں ان کے پیش نظر اس خطبہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔(آئینہ)
پروفیسر شاہ حسن عثمانی
بعد خطبہ مسنونہ
محترم بزرگو، دوستو اور عزیز نوجوانو
اللہ کا بڑا فضل اور اس کا احسان ہے کہ اس سال بھی ہمیں اور آپ کو رمضان المبارک کا یہ مہینہ نصیب ہوا ہے ۔ اورہمیں اس کا موقع ملا ہے کہ ہم اس مہینہ سے زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کر سکیں۔ اگر آپ غور کریں اور اپنے گردو پیش پرنظر ڈالیں تو آپ کو کتنے ایسے لوگ ملیں گے جو گذشتہ رمضان المبارک میں موجود تھے اور وہ آج ہم میں نہیں ہیں ۔ یہ ہماری اور آپ کی خوش قسمتی ہے کہ الله تعالی ٰنے ہمیں اور آپ کو زندہ رکھا اور اس مبارک مہینہ میں جس کا مقصد ہی تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ اس کا موقع نصیب کیا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تقویٰ کی زندگی بسر کرسکیں۔
حضرات !
جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتے تھے اور آپ خود کمرکس کر عبادت و ریاضت کے لئے تیار ہوتے تھے۔ ہم رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے اسی اسوہ کے مطابق چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو دراصل رمضان المبارک کی تیاری کے سلسلے کی چند تجاویز اور تدابیر ہیں ۔ جنہیں اگر ہم استعمال میں لائیں تو ہم رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم نے جو کچھ پڑھا لکھا ہے اور جو ہماری سوچ ہے ان باتوں کو بہت ہی اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ٰمیری بات کو آپ کے دلوں میں اتار دے۔ اور اس سے آپ کی زندگی میں جو اچھے اثرات مرتب ہوں وہ آپ کے لئے بھی دین و دنیا میں فلاح کا سبب اور میرے لئے بھی مغفرت کی موجب ہوں ۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ اگر آپ ان باتوں کو اپنے لئے نافع پائیں تو دعا کریں کہ اللہ تعالی ٰمیرا خاتمہ ایمان پر کرے اور مجھے اپنی مغفرت میں ڈھانپ لے۔
بہ شکریہ رومی عثمانی |
حضرات !
اس مہینہ کی عظمت اور برکت بلا شبہ عظیم ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصہ میں آ گئیں جو اس مہینہ کو پالے۔ جب بارش ہوتی ہے تو مختلف ندی، نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت اور گہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ زمین کے مختلف ٹکڑے بھی اپنی استعداد کے مطابق ہی فصل دیتے ہیں۔ بارش سب پر یکساں برستی ہے مگر ایک چھوٹے سے گڑھے کے حصے میں اتنا وافر پانی نہیں آتا جتنا ایک لمبے چوڑے تالاب میں بھر جاتا ہے۔ اسی طرح جب پانی کسی چٹان یا بنجر زمین پر گرتا ہے تو اس کے اوپر ہی سے بہہ جا تا ہے اور اس کو کوئی نفع نہیں پہنچاتا لیکن اگر زمین زرخیز ہو تو وہ لہلہا اٹھتی ہے۔ یہی حال انسانوں کی فطرت اور اس کے نصیب کا ہے۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کو اچھی طرح یادرکھئے ۔ کتنے روزے دار ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے رات کی جگائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
حضرات!
ہمیں اب غور کرنا ہے کہ کون کون سی تدابیر اختیار کریں جس سےہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔ اور ہمارے اندرصحیح معنوں تقویٰ کی صفت پیدا ہو جائے ۔ جو اصل مطلوب ہے۔
اس سلسہ میں پہلی چیز نیت اور پکا ارادہ ہے۔ نیت صحیح بھی ہونی چاہئے اور خالص بھی ۔ لیکن ہر کام صرف اللہ تعالی ٰکی رضا کے حصول کے لئے اور اس کے اجر و انعام حاصل کرنے کے لئے کرنا چا ہئے۔ اگر آپ کی نیت خالص نہ ہوگی اور آپ کا م صرف الله تعالی کی رضا کے لئے نہ کریں گے تو وہ قبول نہ ہو گا ۔ اور آپ کی محنت کا اجر ضائع کیا جا سکتا ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔
اس مقصد کے لئے بہت مفید ہوگا۔ اگر آپ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک دن پہلے یا آغاز کے فورا ًبعد پہلی ہی رات میں تھوڑی دیر تنہائی میں بیٹھ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور خود کو حاضر جا نیں۔ اس کی حمد کریں۔ اس کے نبی پر در و دبھیجیں۔ اپنے گناہوں سے استغفار کریں ۔ اس کے بعد پورے ماہ کوشش اور محنت کی نیت اور ارادہ کریں: اللہ تعالی ٰسے توفیق اور اعانت طلب کریں اور دعا کریں کہ وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کے آپ کو اپنی راہ پر چلائے۔
دوسری چیز قرآن مجید کی تلاوت و سماعت اورعلم وفہم کے حصول کا اہتمام ہے۔ اس مہینہ کا اصل حاصل ہی قرآن سننا اور پڑھنا۔ قرآن سیکھنا اور اس پرعمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ اس لئے آپ کو سب سے زیادہ اہتمام جس چیز کا کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن مجید کی صحبت و معیت میں بسر کریں۔ یہ وقت اس طرح بسر کریں کہ ایک طرف آپ کو معلوم ہو کہ اللہ تعالی ٰنے آپ سے کیا کہا ہے۔ دوسری طرف آپ کا دل اور آپ کی سوچ قرآن کو جذب کرلے۔ اور آپ کے اندر اس کے مطابق عمل کے لئے آمدگی پیدا ہو۔ نماز تراویح کی پابندی سے کم از کم اتنا ضرور حاصل ہوتا ہے کہ آپ پورا قرآن ایک بار سن لیتے ہیں ۔ اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اللہ کے کلام سننے کا روحانی فائدہ اپنی جگہ بہت قیمتی ہے ۔ لیکن عربی نہ جاننے کی وجہ سے آپ اس عبادت سے یہ فائدہ نہیں حاصل کر پاتے کہ آپ قرآن کے پیغام اور مضامین سے واقف ہو جائیں۔ ان کو تازہ کر لیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اس مقصد کے لئے کچھ زیادہ محنت کریں اور کچھ اس سے زیادہ وقت قرآن کے لئے لگا ئیں جتنا وقت آپ تر اویح میں لگاتے ہیں ۔ یعنی روزانہ قرآن کا کچھ حصہ تر جمہ سے سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں ۔ سمجھ کر پڑھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ قرآن مجید کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے ساتھ اپنے دل اور روح کے تعلق کو گہرا کریں اور پروان چڑھائیں ۔ قرآن مجید نے خود اپنے پڑھنے اور سننے والوں کی جو صفات بیان کی ہیں وہ صرف ذہن سے سمجھ کر پڑھنے تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کا اپنا بیان ہے کہ جب ان کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو سننے اور پڑھنے والوں کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور نرم پڑ جاتے ہیں ۔ ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ ان پر گریہ و زاری طاری ہو جاتا ہے۔ ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ جب قرآن مجید پڑھوتو روو ٔ اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو ۔ اس لئے کہ قرآن حزن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔
تیسری چیز ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش ہے۔ روزہ کا مقصد تقوی ٰپیدا کرنا ہے، اور رمضان المبارک کا مہینہ تقویٔ کی افزائش کے لئے بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لئے اس مہینہ میں اللہ تعالی ٰکی نافرمانی سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنا ضروری ہے۔ یوں تو یہ کوشش زندگی کے ہر معاملہ میں کرنا چاہئے ۔ لیکن دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرتی روابط کے معاملہ میں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ وہ آدمی بڑاہی بد قسمت ہوگا جو بڑے اہتمام سے روزے رکھے ۔ نمازیں پڑھے۔ صدقے کرے ، قرآن پڑھے اور پھر قیامت کے دن اللہ کے حضور اس حال میں آئے کی گردن پر لوگوں کی طرف سے دعوؤں کا ایک انبار ہو۔ کسی کو مارا۔ کسی کو گالی دی ۔ کسی کی بے عزتی کی۔ کسی کا دل دکھایا۔ کسی کا مال ناحق کھایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں اصل مفلس ایسا ہی شخص ہے۔ اس کی تمام نیکیاں دعوے داروں کو دیدی جائیں گی ۔ پھر بھی ختم نہ ہوئے تو دعویٰ داروں کے گناہ اس کے سر ڈال دئے جا ئیں گے ۔ اور اس کو سر کے بل جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ تعالی ٰ ہم سبھوں کو اس سے محفوظ رکھے۔ اچھی طرح جان لیجئے کہ روز ہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ہے۔ آنکھ کا بھی روزہ ہے۔ کان کا بھی روزہ ہے۔ زبان کا بھی روزہ ہے۔ ہاتھ کا بھی روزہ ہے۔ پاؤں کا بھی روزہ ہے۔ وہ روز ہ یہ ہے کہ آنکھ وہ نہ دیکھے، کان وہ نہ سنے، زبان وہ نہ بولے۔ ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں جو اللہ تعالی کو نا پسند ہیں ۔ اور جن سے اس نے منع فرمایا ہے۔
چوتھی چیز قیام لیل ہے۔ رات کا قیام اور تلاوت قرآن۔ اپنا احتساب اور استغفار۔ تقویٰ کے حصول کے لئے بہت ضروری اور کارگر نسخہ ہے۔ یہ متقیوں کی صفت اور علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقی وہ ہیں جو راتوں کو کم سوتے ہیں اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں تھوڑا سا اہتمام کر کے رات کے اس آخری حصہ میں آپ قیام لیل کی برکت حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس کا طریقہ بڑا آسان ہے۔ سحری کے لئے تو آپ اٹھتے ہی ہیں۔ پندرہ بیس منٹ پہلے اٹھ کر وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لیں...................یہ رات کا وہ حصہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ الله تعالیٰ دنیا والوں کے بہت قریب آتا ہے اور پکارتا ہے۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے جو مانگے وہ دوں، کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہے کہ میں اس کو معاف کر دوں ۔ ایک روایت میں تو دل کو تڑپا دینے والے یہ الفاظ آتے ہیں کہ رات کو اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ پھیلا دیتا ہے اور کہتا ہے۔ کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے جو فقیر ہے نہ ظالم اورصبح تک یہی کہتا رہتا ہے۔ جب الله تعالی ٰنے اپنی رحمت کا ہاتھ اس طرح پھیلا رکھا ہو اور آپ کھانے پینے کے لئے بستر سے اٹھ ہی رہے ہوں تو اس سے زیادہ آسان خوش نصیبی کی راہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ چند منٹ اور زیادہ لگا کر اپنے گناہ بخشوالیں اور جو مانگیں وہ پالیں۔
پانچویں چیز اللہ کی راہ میں فیاضی سے خرچ کرنا ہے۔ نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، جو کچھ الله تعالیٰ نے بخشا ہے وہ سب خرچ کرنا۔ وقت بھی اور جسم و جان کی قوتیں بھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر مال خرچ کرنا۔ اس لئے کہ مال دنیا میں سب سے بڑھ کرمحبوب اور مرغوب ہوتا ہے اور دنیا کی محبت ہی ساری کمزوریوں کا سرچشمہ ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اورسخی تھے۔ لیکن جب رمضان المبارک آتا اور حضور کی ملاقات حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہوتی تو پھر آپ کی سخاوت اور دادو دہش کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ آپ اپنی فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کے مانند ہو جایا کرتے تھے۔ قیدیوں کو رہا فرماتے اور ہر مانگنے والے کو عطا کرتے ۔ پس آپ بھی رمضان میں اپنی مٹھی کھول دیں۔ اللہ کے دین کی اقامت وتبلیغ کے لئے ، اقرباء کے لئے ۔یتیموں اور مسکینوں کے لئے جتنا مال بھی اللہ کی راہ میں نکال سکیں نکالیں ۔ بھوک اور پیاس تو برداشت کرتے ہی ہیں کچھ تنگی اورسختی جیب کے معاملہ میں بھی برداشت کیجیے۔ لیکن جو کچھ دیجیےصرف اللہ کے لئے دیجیے۔ کسی سے بدلہ اور شکریہ کی خواہش آپ کے دل میں نہ ہو لا مزيد فكم جزا ًولا شکرا ً ہم تم سے نہ بدلا چا ہتے ہیں نہ شکریہ۔ اس سے کیا فائدہ کے آپ مال نکالیں ۔ سرمایہ کاری کریں اور اپنے ہی ہاتھوں سرمایہ اور نفع دونوں ضائع کر دیں۔ دعا ہے کہ الله تعالی ہم لوگوں کو اس سے محفوظ رکھے ۔ اور رمضان المبارک میں وہ تقوی ٰحاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم قرآن مجید کی ہدایت کے مستحق ہوں ۔ ہم قرآن کا علم حاصل کریں ۔ اس پرعمل کریں۔ اللہ تعالی ہمیں قرآن کا پیغام لے کر کھڑا ہونے اور اس کو قائم کرنے کے لئے حوصلہ، عزم اور شوق ولولہ عطا فرمائے۔ آمین
وآخر و دعونا عن الحمد لله رب العالمين
جزاک اللہ خیرا
ReplyDelete