خوشحال نامہ
نظیر اکبر آبادی
جوفقر میں پورے ہیں وہ ہر حال میں خوش ہیں
ہر کام میں ہر دام میں ہر جال میں خوش ہیں
گرمال دیا یار نے تو مال میں خوش ہیں
بے زر جو کیا تو اسی احوال میں خوش ہیں
اجلاس میں اد بار میں اقبال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
چہر ے پہ ملامت نہ جگر میں اثر غم
ماتھے پہ کہیں چین نہ ابرو میں کہیں خم
شکوہ نہ زباں پر نہ کبھی چشم ہوئی نم
غم میں بھی وہی عیش الم میں بھی وہی دم
ہر بات ہر اوقات ہرا فعال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
گر اس نے دیاغم تواسی غم میں رہے خوش
اور اس نے جو ماتم د یا ماتم میں رہے خوش
کھانے کو ملاکم تو اسی کم میں رہےخوش
جس طور کہا اس نے اس عالم میں رہے خوش
دکھ درد میں آفات میں جنجال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
جینے کانہ اندوه نہ مرنے کا ذرا غم
یکساں ہے انہیں زندگی اور موت کا عالم
وا قف نہ برس سے نہ مہینے سے وہ اک دم
نہ شب کی مصیبت نہ کبھی روز کا ماتم
دن رات گھڑی پہر مہ و سال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
قشقے کا ہوا حُکم تو قشقہ وہیں کھینچا
جُبّےکی رضا دیکھی توجُبّہ و ہیں پہنا
آزاد کہا ہو تو و ہیں سر کو منڈایا
جو رنگ کہا اس نے وہی رنگ رنگا یا
کیا زرد میں کیا سبز میں کیا لال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
this is my Fav
ReplyDelete