آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday, 3 April 2020

Magar woh toot gayi - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Magar woh toot gayi by Saleha Abid Hussain  Chapter 4 NCERT Solutions Urdu
مگر وہ ٹوٹ گئی
صالحہ عابد حسین
دور کسی گھنٹے نے دو بجائے ۔ اس کے وسیع بیڈ روم کے ہاتھی دانت کے لیمپ میں نیلا زیرو بلب روشن تھا جس کی ٹھنڈی روشنی میں ہر چیز بےجان سی نظر آرہی تھی ۔ سنگھار میز پربھی سیکڑوں شیشیاں، بوتلیں برش وغیرہ وغیرہ - ڈبل بیڈ کا قیمتی بستر اور نیلا نائٹ گون، چھت پر ایک چھوٹا سا بلوریں جھاڑ - ہر چیز اس کا منہ چڑارہی تھی۔
برابر کے کمرے میں نے اپنی آیا کے ساتھ آرام کر رہے تھے۔ دوسرے نوکر اپنے اپنے کواٹرز میں محو خواب ہوں گے ہاں صرف اس کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ دو بج چکے ، نہ وہ آئے ، نہ نیند آئی ۔ جس طرح وہ روٹھے روٹھے ہیں اسی طرح نیند بھی روٹھ گئی ہے۔ وہ ڈبل بیڈ کے دوسرے حصّے پرلوٹ لگا کر آ گئی اور ان کے تکیے پر سر رکھ دیا آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب سا امنڈ آیا جو اس کے گالوں پر لڑھکتے کنپٹیوں پر سے پھیلتے نرم  تکیے  میں جذب ہوتے رہے ۔ سامنے دیوار پران دونوں کی قد آدم رنگین تصویر آویزاں تھی ۔ ان کی شادی کی تصویر ۔ اس کے چہرے پر شرمیلی اور مسرور مسکراہٹ ہے اور ان کی آنکھوں میں اشتیاق ہے شرارت ہے اورتجسس بھی؟
شادی - شادی - شادی!!
شادی یار بربادی؟ کتنی بربادیاں اس نے اپنے چاروں طرف دیکھی تھیں۔ ماں کی زندگی، بھابھی کا انجام، اس کی پیاری سہیلی منورما کی خودکشی، اس کی ٹیچر کی تنہا اداس زندگی ۔ دو چار نہیں بیسیوں ناکام شادیوں کو اس نے دیکھا تھا۔ یہ شادی بربادی کیوں بن جاتی ہے؟ عورتیں تو مردوں ہی کو الزام دیتی ہیں مگر کیا ان کا قصور کچھ نہیں ہوتا؟ کیا حقیقت نہیں کہ شادی شدہ زندگی کو کامیاب اور  مسرور بنا نا عورت کا کام ہے۔نباہنے کی ذمے داری مرد سے زیادہ عورت پر آتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو۔ اگر وہ چاہے تو ؟ کیا یا نہیں ہوسکتا۔ اس نے اگر کبھی شادی کی تو۔ ”نہیں نہیں“ وہ لرز اٹھی ۔ جانے کیا انجام ہو۔ وہ ابھی شادی نہیں کرے گی ۔ ایم ۔ اے کرنے کے بعد۔ پھر ۔پھر سوچے گی۔ لیکن ادھر ادھر کی زندگیاں دیکھ کر وہ بہت زیادہ حساس بلکہ شکّی ہوگئی تھی ۔ کیا ہرج ہے اگر وہ شادی نہ کرے؟ اورتعلیم پائے۔ ڈگریاں لے۔ اچھی سی نوکری کرے۔ اپنا گھر بنائے۔
مگر یہ ناکام زندگیاں -یہ جدائیاں یہ طلاقیں؟ اس میں مرد سے زیادہ عورت کا قصور ہے شاید۔ وہ چاہے تو..... وہ سہارنا سیکھے ۔گھر بنانا یا بگاڑنا عورت کے ہاتھ میں ہے ۔ بھابی کا مزاج۔۔ خدا کی پناہ ! باجی کی خودداری اور آن بان ۔ شوہر سے مقا بلے.... منورما حد سے زیادہ حساس نہ ہوتی۔ اور اتنی بے زبان تو ۔تو شاید خودکشی کی نوبت نہ آتی۔
اماں اس رشتے کے خلاف تھیں۔ خاندان اور باجی کوعمر پر اعتراض تھا اور بھائی صاحب کھلم کھلا کہتے تھے کہ مزاج کا بہت تیز ہے۔ البتہ ابا میاں کہتے ۔ ”ذہین ہے۔ اعلا تعلیم یافتہ ہے۔ اتنی پوزیشن ہے۔ درجہ عہدہ، کیا نہ تھا ان کے پاس اور پھر یہ مسکان ! خوامخواہ لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ پندرہ سترہ برس کا فرق ہے، کیا ہوا۔ مرد کی عمر میں فرق ہونا ہی چاہیے۔ لڑ کی جلدی میچور ہو جاتی ہے۔ مزاج بھی مردوں کا تیز ہوتا ہے۔ عورت اگر مزاج شناس ہو تو اماں ، باجی، بھابی منورما، شانتی۔ ان سب کی زندگیاں اس کی نظر میں ہیں۔ سب کی کمزوریاں بھی وہ جانتی ہے۔ اس کا عزم تھا کہ وہ ان کا دل جیتے گی۔ اس کے لیے ناگز یر بن جائے گی۔ اس کے مزاج کو سہارے گی۔ اسے خوش رکھے گی۔ میں نباہ کرنا جانتی ہوں نباہ کر کے دکھاؤں گی۔“ اور سب کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ وہ ان کی بن گئی۔
ایک کے بعد دوسری بیٹی ہوئی تو اس روشن خیال اعلا تعلیم یافتہ مرد کے چہرے پر ناگواری کے بل پڑ گئے ۔ جیسے یہ اس کے اختیار کی بات تھی ۔ بچیوں نے جانا ہی نہیں کہ باپ کی محبت کس چڑیا کا نام ہے۔ خالائیں، پھوپھیاں، محلّے پڑوس والے جن بچوں کے بھولے چہروں اور پیاری باتوں پر جان دیتے ، ماموں چچا جن سے اتنی محبت کرتے وہ ڈیڈی کی صورت کو ترستی رہیں اور ماں کی محبت سے محروم!
مگراسے تو نباہ کرنا تھا۔ اس کے لیے اس نے وہ سہا، وہ سہا، جس کا اعتراف وہ خود اپنی ذات سے بھی کرنانہیں چاہتی تھی! سارا خاندان یہ سمجھتا تھا کہ شوہر اسے بے حد چاہتا ہے۔ آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ ہزاروں میں کھیلتی ہے۔ ہر ضرورت اور خواہش پوری ہوتی ہے۔ ہر عیش و آرام میسر ہے۔ ایسی خوش قسمت لڑکیاں کم ہوتی ہیں ۔ خوش قسمت !!
ہاں اس نے سب کو یہ احساس دلایا تھا۔ وہ جلتے داغ، وہ ٹپکتے زخم ، وہ مجروح خودداری اپنائیت کا وہ مجبور احساس کس نے دیکھا ؟ کون دیکھ سکتا تھا جس کو وہ پندرہ سال سے سہارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے جلے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی!
اس نے– اس عالی خاندان– تعلیم یافتہ خودمختار لڑکی نے کیا کیا نہیں سہا۔ رات رات بھر ٹانگیں دبائیں دن بھر کھانے پکائے اور اپنے ہاتھ سے کھلائے!
جب شوشو پیدا ہوا تو کچھ عرصے مجازی خدا نے بیٹے کی ماں بن جانے کے بعد اس کا خیال کیا۔ وہ قدر اور عزت جو کچھ عرصے بعد پھر خاک میں مل گئی۔
چار بجے کی آواز پر وہ چونک پڑی ۔ کھڑکی میں سے چاند کی کرنیں شیشے پر دھندلاسی گئی تھیں ۔ وہ اب تک نہیں آیا۔ اور اب یہ کون سی نئی بات ہے۔ کب سے یہ آگ سینے میں بھڑک رہی ہے اور وہ ان شعلوں کو بجھانے اور دبانے کی جد و جہد میں لگی ہوئی ہے۔
”چند دن کو بھیا کے پاس چلی جاؤں؟“ ”ہاں جاؤنا – تمھیں کسی سے محبت ہی نہیں ہے؟‘‘ پہلی بار اس نے یہ جملہ سنا تو حیران رہ گئی منہ سے نکلا۔
”کیا سچ مچ چلی جاؤں؟“
”اور کیا اسٹامپ پر لکھ کر دوں؟“
”اورتم میرے بغیر .... “
 ”میں خوب رہ لوں گا تمھارے بغیر ۔ تمھاری لڑ کی اتنی بڑی ہوچکی ہے۔ اس کو محبت دو۔ دوسرے بچّوں کو سنبھالو۔میرا پیچھا چھوڑو۔“
وہ گم سم حیران اس کامنھ تکتی رہی ۔ وہ ایسا بے نیاز، بےتعلق بیٹھا رہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ دور کہیں سے موذّن کی آواز بلند ہوئی ۔ اس نے بیٹھ کر سرڈھک لیا۔ کھڑکی میں سے پھٹنی پوکی ہلکی دو دھیا روشنی  پراس کی نظریں جم گئیں۔اوشا!  اس کی زندگی میں اوشا کی کوئی   کرن چمکے گی کیا؟
وولڑکی اس سے زیادہ حسین نہیں ہوسکتی۔ کل اس نے ان سے صاف صاف بات کرنے کا تہیہ کرلیا تھا ۔لیکن ایک جملہ سن کر ہی انھوں نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
تم نے جون سنا سب ٹھیک ہے ۔مگر تم کون ہوتی ہو اعتراض کرنے والی ۔ وہ تو میری جان کے ساتھ ہے ۔ تم چاہو تو چھوڑ سکتی ہو؟“
نہیں –نہیں– نہیں ، ہسٹیرک انداز سے اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگی۔
نہیں - آپ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ ایسی آتی جاتی عورتیں میری جگہ نہیں لے سکتیں ۔ آپ کےبچے .......بیٹیاں  ہیں–  بیٹا ہے..........
تمھیں پیسے کی کمی نہ ہوگی۔ جتنا چاہوگی ملے گا۔
نہیں– نہیں– نہیں– مجھے پیسے کی نہیں آپ کی ضرورت ہے۔ بچوں کو باپ کی ضرورت ہے۔
" بکے جا ‘– اور یہ کہتے وہ باہر نکل گئے۔
اب سورج نکل آیا تھا۔آیا ئیں بچوں کو تیار کررہی تھیں ۔ نند کی آواز گونج رہی تھی ۔ اس کی ملازمہ دو بار نا شتے کا تقاضا کرنے آ چکی تھی۔ مگر وہ اسی طرح نائٹ گاؤن میں مسہری پر بیٹھی تھی اور سوچی جارہی تھی
نہیں– یہ شادی ٹوٹ نہیں سکتی۔ میں– میں سب سہاروں گی ۔ سب کچھ جھیلوں گی۔ مگر اسے چھوڑوں گی نہیں– عورت کی زندگی میں سخت وقت بھی آتے ہیں ۔ آج نہیں کل– کل نہیں پرسوں وہ پچھتائیں گے..... اور وہ لڑ کی۔ وہ خود انہیں چھوڑ دے گی........... میری جگہ کون لے سکتا..........
بیگم صاحب– آپ کے نام کا خط– ملازمہ نے ایک بڑا سا لفافہ اس کے کانپتے ہاتھوں میں دے دیا۔
’’جانے کیا ہے؟ اس کا دل لرز رہا تھا۔ بڑی دیر بعد اس نے لفافہ چاک کیا۔
آہ! تو ووٹوٹ گئی!
طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا تھا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کو تکے جارہی تھی اور ایک جملہ بڑ بڑاتی جاتی تھی۔
مگر وہ ٹوٹ گئی۔ ٹوٹ گئی – ٹوٹ گئی ۔

Magar woh toot gayi by Saleha Abid Hussain  Chapter 4 NCERT Solutions Urdu

صالحہ عابدحسین
(1913ء – 1988 ء)
صالحہ عابد حسین کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا۔ وہ خواجہ غلام الثقلین  کی صاحبزادی اور ڈاکٹر سید عابدحسین کی بیوی تھیں۔ وہ خواجہ الطاف حسین حالی کے خاندان میں پانی پت میں پیدا ہوئیں ۔ لکھنے پڑھنے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا مشہور مصنف فلسفی اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عابد حسین سے شادی کے بعد ان کے تصنیف و تالیف کے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ لیکن ان کی بنیادی حیثیت ناول نویس اور افسانہ نگار کی ہے۔ صالحہ عابد حسین اپنے قلم کے ذریعہ تحریک آزادی میں شریک رہیں ۔ انھوں نے اپنے ناولوں ، افسانوں اور ڈراموں کے ذریعے انسانی اور تہذیبی قدروں کو عام کیا اور عورتوں کے مسائل اور سماجی خرابیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ۔ حکومت ہند نے ان کو پدم شری کا اعزاز عطا کیا ۔ کئی صوبائی اکادمیوں نے بھی انھیں انعام دیئے۔ ان کے ناولوں میں ’عذرا‘’ آتش خاموش‘، ’قطرے سے گہر ہونے تک‘،’ یادوں کے چراغ‘ اور ’اپنی اپنی صلیب‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ افسانوں کے چار مجموعے بھی شائع ہوئے۔

لفظ ومعنی
منجمد : جما ہوا، ٹھہرا ہوا
نالاں : بیزار
ہراساں : ڈرا ہوا
اوجھل : نظروں سے چھپاہوا
ہسٹریک انداز : چیخنا، چلانا، رونا۔ ہسٹیریا ایک بیماری ہوتی ہے جس میں انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ مختلف طرح کی حرکتیں کرنے لگتا ہے
خودداری : اپنی عزت کا پاس

 غور کرنے کی بات
* اس کہانی کے دو رخ ہیں۔ اس کہانی میں جہاں لڑکیوں پر مظالم کی داستان بیان کی گئی ہے وہیں غیر ذمے دار مردوں پر طنز بھی کیا گیا ہے۔
*  یہ کہانی ہمارے معاشرے کی ان خواتین کی تصویر کشی کرتی ہے جو آئے دن ایسے حالات سے مقابلہ کرتی ہیں، جیسا کہ اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ شوہر کے برےبرتاؤ کے با وجود بیوی کسی نہ کسی طرح خواہ وہ اپنے خاندان کی عزت یا اپنے بچوں کی خاطر نباہنے کی کوشش کرتی ہے۔
*  صالحہ عابد حسین کی یہ کہانی جس زمانے میں لکھی گئی اس وقت کی تعلیم یافتہ لڑکیاںظلم سہنے کے باوجود خاموش رہتی تھیں لیکن آج کی عورت بیدار ہوچکی ہے وہ شوہر کے اس گھناؤنے عمل کے بعد خاموش نہیں بیٹھتی، اس کوصدمہ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن اس کے بعد اس کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. مصنفہ نے بھابھی ، باجی اور منورما کی شادیوں کی ناکامی کے کیا اسباب بتائے ہیں؟
جواب: بھابھی کی بد مزاجی، باجی کا حد سے زیادہ خوددار ہونا اور منورما کا حد سے زیادہ حساس ہونا مصنفہ کی نظر میں ان کی شادی کی ناکامی کے اسباب میں شامل تھیں۔ 
2.  افسانے کی ہیروئن کو پورا خاندان خوش قسمت کیوں سمجھتا تھا؟
جواب: سارا خاندان یہ سمجھتا تھا کہ اُس کا شوہر اسے بے حد چاہتا ہے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا  وہ ہزاروں میں کھيلتی ہے۔ اُس کی ہر خواہش اور ضرورت پوری ہوتی ہے اس کو ہر عیش و آرام میسّر ہے اور یہی وجہ تھی کہ سب اس کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔

3.  افسانے کی ہیروئن ہر طرح کے حالات سے نباہ کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی تھی؟
جواب: افسانے کی ہیروئن کا ماننا تھا کہ یہ ناکام زندگیاں، یہ جُدائیاں اور یہ طلاقیں اس میں مرد سے زیادہ عورت کا قصور ہوتا ہے عورت چاہے تو وہ گھر کو سنبھال سکتی ہے گھر بگاڑنا یا بنانا عورت کے ہاتھ میں ہے وہ سمجھتی تھی کی اُس کی بھابھی کا مزاج، باجی کی خودداری اور منورما  کا حد سے زیادہ حساس ہونے  کی وجہ سے ان کی شادی ناکام ہو گئی۔ اُس نے سوچا کے وہ اپنے شوھر کو خوش رکھے گی اُس کا دل جیتے گی اسی لیے اُس نے فیصلہ کیا کے وہ نباہ کرے گی۔ اور یہ ثابت کردے گی کہ ناکام شادی کی وجہ مرد سے زیادہ عورت ہوتی ہے۔

4.  اس افسانے کا ہیرو تعلیم یافتہ ہونے کے باو جود لڑکیوں کے پیدا ہونے پر بیوی سے ناراض کیوں تھا؟
جواب: افسانے کا ہیرو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت رذیل ،گھٹیا اور چھوٹی سوچ رکھتا تھا اس لیے وہ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر بیوی سے ناراض ہو گیا۔

عملی کام:
مندرجہ میں محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکنا : طلاق کے فیصلے پر وہ اپنے شوہر کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکنے لگی۔
خاک میں ملنا : شادی کی ناکامی سے اس کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔
آنکھ سے اوجھل ہونا : دور راستے میں وہ اس کی آنکھ سے اوجھل ہوگیا۔
ہزاروں میں کھیلنا ; ایک امیر شخص سے شادی کر کے وہ ہزاروں میں کھیل رہی تھی۔

* افسانے میں ایک جگہ مزاج شناس‘‘ لفظ استعمال ہوا ہے جس میں شناس‘‘ لاحقہ ہے۔ آپ اس لا حقے کا استعمال کر کے تین الفاظ لکھیے۔
قیافہ شناس
مزاج شناس
زبان شناس
شناس کے معنی معرفت، عرفان و آگاہی، پہچان، شناخت ہیں۔

* اس افسانے میں استعمال ہونے والے پانچ انگریزی الفاظ لکھیے ۔
ہسٹیریا، نائٹ گاؤن، لیمپ، ڈگری،میچور، ڈیڈی
خلاصہ
.
مگر وہ ٹوٹ گئی میں صالحہ عابد حسین نے مسلم معاشرہ بلکہ ہندوستانی سماج کے ایک اہم مسئلہ پر قلم اٹھا یا ہے۔
 ایک زمانہ تھا جب ہندوستانی لڑکی کو ایک گائے بلکہ مظلوم گا ئے سمجھا جاتا تھا۔ اسے جس کھونٹے سے باندھ دیا جاتا تھا بندھ جایا کر تی تھی لیکن آج کی عورت بیدار ہوچکی ہے اس میں ایک نیا عزم ایک نیا حوصلہ ہے ۔
وہ اپنی ماں پر ہوئے مظالم سے آشنا ہے وہ بھابی اور باجی اور منورما کی ناکام شادیاں اور منورما کی خودکشی بھی دیکھی ہے  اس کے ذہن میں بے شمار سوال کلبلاتے ہیں ۔ شادی یا بربادی۔ یہ ناکام زندگیاں۔ یہ جدائیاں۔ یہ طلاقیں؟ اسے اس میں مردوں سے زیادہ عورتیں قصور وار نظر آتی ہیں اور وہ ایک عزم کرتی ہے کہ وہ اپنی شادی کو ناکام نہیں ہونے دے گی وہ کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹمنٹ کر ہی لے گی۔ نباہ کر لے گی اور اس نباہ کے لئے اس نے وہ سہا جس کاعتراف وہ خود اپنی ذات سےبھی نہیں کر نا چاہتی تھی ۔وہ مجسم خدمت گزار بن گی۔ لیکن صرف بیٹے کے پیدا ہونے پر شوہرکا
چند دن کا  التفات مل پایا ور نہ  وہی بےرخی حاکمیت کا انداز اور پھر اچانک اسے محسوس ہوا جیسے اس کا شوہر اس سے کہیں دور چلاگیا۔ کوئی دوسری لڑکی اس کے شوہر کی زندگی میں آ گئی ہےاس نےلاکھ حالات کو سنبھا لنا چاہا مگر بات بنی نہیں اور ایک دن شوہر کا بھیجا ہو الفافہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے کھولا ۔ آ ہ و ہ تو ٹوٹ گئی۔
طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کو تکے جارہی تھی اور ایک جملہ بڑبڑاتی جاتی تھی۔
مگرو ہ ٹوٹ گئی ۔ ٹوٹ گئی ۔ ٹوٹ گئی۔

کلک برائے دیگر اسباق

1 comment:

  1. جناب آپنے بہت کّھوب جواب دیے ہیں۔ لیکن سوال 4 میں لڑکیوں نہیں لڑکی ہوگا

    ReplyDelete

خوش خبری