قطعات----- اختر انصاری
امکانات
قدم آہستہ رکھ کہ ممکن ہے
کوئی کونپل زمیں سے پھوٹی ہو
یا کسی پھول کی کلی سر ِدست
مزے خواب عدم کے لوٹتی ہو
اختر انصاری
(1909-1988)
اختر انصاری ، بدایوں (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے دہلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے مگر والد کی علالت کے باعث جلد واپس آگئے ۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اس کے بعد ٹریننگ کالج میں بحیثیت لیکچرر ان کا تقرر ہوا۔ 1974ء میں وہ ریٹائر ہوئے اور آخر وقت تک علی گڑھ ہی میں رہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے میں ہوا۔ وہ شروع میں شیلی اورکیٹس سے متاثر ہوئے لیکن بعد میں انھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کے اثرات قبول کیے اور شاعری کو سیاسی اور سماجی شعور کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اختر انصاری نے افسانے بھی لکھے اور تنقید بھی لیکن انھیں شہرت قطعات سے ملی۔ ایک ادبی ڈائری، افادی ادب، غزل کی سرگزشت، غزل اور غزل کی تعلیم ان کی نثری تصنیفات ہیں ۔ نغمۂ روح، روحِ عصر ،دهان زخم، خنده ٔ سحر، درووداغ، شعلہ بجام، آبگینے اختر انصاری کے مجموعے ہیں۔
لفظ ومعنی
سردست | : | في الحال ، ابھی |
عدم | : | وہ دنیا، جہاں انسان مرنے کے بعد جاتا ہے، وجود کا نہ ہونا |
غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ہمیں زندگی کو احتیاط کے ساتھ دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے گزارنا چاہیے یا اس طرح جینا چاہیے کہ دوسروں کو دشواری نہ ہو۔
* اس قطعے میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ہمیں زندگی کو احتیاط کے ساتھ دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے گزارنا چاہیے یا اس طرح جینا چاہیے کہ دوسروں کو دشواری نہ ہو۔
سوالوں کے جواب لکھیے
1. کلی کا خواب عدم کے مزے لوٹنے سے کیا مراد ہے؟
جواب:کلی کا خوابِ عدم کے مزے لوٹنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ابھی کسی اور دنیا میں میٹھی نیند لے رہی اور جیسے ہی وہ بیدار ہوگی اس کے کلی سے پھول بننے کا عمل شروع ہوجائے گا۔
2. اس قطعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:کلی کا خوابِ عدم کے مزے لوٹنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ابھی کسی اور دنیا میں میٹھی نیند لے رہی اور جیسے ہی وہ بیدار ہوگی اس کے کلی سے پھول بننے کا عمل شروع ہوجائے گا۔
2. اس قطعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:اس قطعہ میں شاعر کہتا ہے کہ کارخانۂ ہستی میں تو اپنے قدم ذرا سنبھل کر رکھ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس وقت زمین سے کوئی کونپل پھوٹی ہو یا کوئی کلی نیند کے مزے لے رہی ہو۔ یعنی تو کوئی ایسا قدم نہ اٹھا جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔
عملی کام
عملی کام
* اس قطعے کو زبانی یاد کیجیے اور خوشخط لکھیے
آرزو
دل کو برباد کیے جاتی ہے
غم بدستور دیے جاتی ہے
مرچکیں ساری امیدیں اختر
آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے
لفظ ومعنی
برباد | : | تباه |
بدستور | : | ہمیشہ کی طرح مسلسل |
غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حالات کسی قدر نا خوشگوار ہوں تب بھی جینے کی آرزو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
سوالوں کے جواب لکھیے
1. ’ آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کی تمنائیں کبھی نہیں مرتیں اس کی آرزوئیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں۔ انسان بچپن سے جو خواب دیکھتا ہے جو تمنائیں کرتا ہے وہ بڑھاپے تک اس کے ساتھ رہتی ہیں۔
2. اس قطعہ میں کیا بات کہی گئی ہے؟
جواب: اس قطعے میں شاعر کا کہنا ہے کہ اس کی آرزوؤں اور تمناؤں نے اس کے دل کو برابد کر رکھا ہے یعنی تمنائیں نہ پوری ہونے پر اس کا دل غمناک ہے اور اب اس کی ساری امیدیں ختم ہو چکی ہیں لیکن آرزو ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔یعنی شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ آرزوئیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
عملی کام
* قطعے کو بلند آواز سے پڑھے اور زبانی یاد کیجیے۔
* قطعے کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔
* قطعے کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔
شَبِ پُر بَہار
اندھیری رات، خموشی، سرور کا عالم
بھری ہے قہر کی مستی ہوا کے جھونکوں میں
سکوت بن کے فضاؤں پہ چھا گئی ہے گھٹا
برس رہی ہیں خدا جانے کیوں مری آنکھیں
لفظ ومعنی
سوال کے جواب لکھیے
سُرور | : | نشہ |
قہر | : | غضب |
سکوت | : | خاموشی |
سوال کے جواب لکھیے
1. اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کن کیفیات کو بیان کیا ہے؟
جواب: اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کچھ غمگین کیفیات کا ذکر کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اندھیری رات ہے،چاروں جانب خموشی چھائی ہے ،فضا میں ایک قسم کا سرور اور مستی چھائی ہے۔ہوا کے جھونکے گرچہ تیز و تند ہیں لیکن ان میں مستی ہے۔فضا بالکل خاموش ہے اور گھٹائیں برس رہی ہیں۔دراصل شاعر یہاں اشاروں میں اپنی اندرونی کیفیات کا ذکر کر رہا ہے۔
2. ہوا کے جھونکوں میں کیسی مستی بھری ہوئی ہے؟
جواب: ہوا کے جھونکوں میں قہر کی مستی بھری ہوئی ہے۔ یعنی ہوائیں غضبناک ہیں، تیز و تند ہیں لیکن ان میں بھی ایک الگ مستی ہے۔
جواب: اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کچھ غمگین کیفیات کا ذکر کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اندھیری رات ہے،چاروں جانب خموشی چھائی ہے ،فضا میں ایک قسم کا سرور اور مستی چھائی ہے۔ہوا کے جھونکے گرچہ تیز و تند ہیں لیکن ان میں مستی ہے۔فضا بالکل خاموش ہے اور گھٹائیں برس رہی ہیں۔دراصل شاعر یہاں اشاروں میں اپنی اندرونی کیفیات کا ذکر کر رہا ہے۔
2. ہوا کے جھونکوں میں کیسی مستی بھری ہوئی ہے؟
جواب: ہوا کے جھونکوں میں قہر کی مستی بھری ہوئی ہے۔ یعنی ہوائیں غضبناک ہیں، تیز و تند ہیں لیکن ان میں بھی ایک الگ مستی ہے۔
کلک برائے دیگر اسباق |
بہترین کارکردگی ہے۔
ReplyDeleteشکریہ۔زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شریک کریں یہ اردو زبان کی بڑی خدمت ہوگی۔
Delete