ریچھ کا بچّہ
|
کل راہ میں جاتے جو ملا ریچھ کا بچّہ
لے آئےو ہیں ہم بھی اٹھا ریچھ کا بچّہ
سو نعمتیں کھا کھا کے پلا ریچھ کا بچّہ
جس وقت بڑھا ریچھ ہوا ریچھ کا بچّہ
جب ہم بھی چلے ساتھ چلا ریچھ کا بچّہ
تھا ہاتھ میں اک اپنے سوا من کا جو سوٹا
لوہے کی کڑی جس پر کھٹکتی تھی سراپا
کاندھے پر چڑھا جھولنا اور ہاتھ میں پیالا
بازار میں لے آئے دکھانے کو تماشا
آگے تو ہم اور پیچھے وہ تھاریچھ کا بچّہ
کہتا تھا کوئی ہم سے میاں آؤ مچھندر
وہ کیا ہوئے اگلے جو تمہارے تھے وہ بندر
ہم ان سے یہ کہتے تھے یہ پیشہ ہے قلندر
ہاں چھوڑ دیا با با انہیں جنگلے کے اندر
جس دن سے خدا نے یہ دیاریچھ کا بچّہ
مدّت میں اب اس بچے کو ہم نے ہےسدھایا
لڑنے کے سوا ناچ بھی اس کو ہے سکھایا
یہ کہہ کے جو ڈھپلی کے تئیں گت پہ بجایا
اس ڈھب سے اسے چوک کے جمگھٹ میں نچایا
جو سب کی نگاہوں میں کھپا ریچھ کا بچّہ
جب ہم نے اٹھا ہاتھ کڑوں کو جو ہلایا
خم ٹھونک پہلواں کی طرح سامنے آیا
لپٹا ##تو یہ کُشتی## کا # ہنر##آن دکھایا
جو چھوٹے بڑے جتنے تھے ان سب کو رجھایا
ہم بھی نہ تھکے اور نہ تھکا ریچھ کا بچّہ
جب کُشتی کی ٹھہری تو وہیں سرکو جو جھاڑا
للکارتے ہی اس نے ہمیں آن لتھاڑا
گہ ہم نے پچھاڑا اسے گہ اس نے پچھاڑا
اک ڈیڑھ پہر ہوگیا کُشتی کا اکھاڑا
گر ہم بھی نہ ہارے نہ ہٹا ریچھ کا بچّہ
کہتا تھا کھڑا کوئی جو کرآه، اہاہا !
اس کے تمہیں استاد ہو واللہ، اہاہا !
یہ سحر کیا تم نے تو ناگاه اہاہا !
کیا کہئے غرض آخرش اے واہ اہاہا !
ایسا تو نہ دیکھا نہ سنا ریچھ کا بچّہ
|
آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ |
0 comments:
Post a Comment