نام سیدعلی محمد اورتخلص شاد تھا ۔والد کا نام سیداظہارحسین عرف عباس مرزا تھا۔شاد 8 جنوری 1846 میں عظیم آباد میں اپنے نانیہالی مکان میں پیدا ہوئے۔
شاد نے اردو و فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ان کی شاعری میں عربیو قرانی تلمیحات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں عربی پر اچھی دسترس حاصل تھی۔شاد نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور شاعری میں خوب نام کمایا۔
1891 میں حکومت برطانیہ نے” خان بہادر“ کے خطاب سے سرفراز کیا ۔وہ 17 سال تک آنریری مجسٹریٹ رہےاور تاعمرحکومت برطانیہ کے نامزد میونسپل کمشنر رہے۔ ان کاموں کے علاوہ مختلف تعلیمی اداروں کے ممبرادر کمیٹیوں کے بیر ہوا رکن رہے۔ سرکار برطانیہ نے اخیر عمر میں پہلے 600 روپیہ سالانہ کا وظیفہ مقرر کردیا تھا جو بعد میں ایک ہزار روپے ہوگیا۔
گھوڑ سواری اور تیراکی کاشوق تھاجو اس زمانے کے شرفا کا خاص شوق تھا۔ چالیس سال کی عمر کے بعد یہ اشغال چھوٹ گئے اور تصنیف و تالیف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
1897 میں شاد اپنی نانیہال پانی پت گئے۔وہاں نواب نظیر احمد خاں مرحوم کے مہمان رہے۔ واپسی میں دہلی گئے اور حالی کی فرمائش پر علی گڑھ گئے اور سرسید احمد خاں سے ملاقات کی۔ اور 2 دمسبر 1897 کو اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور مولود پڑھا۔ 1916 میں امیر مینائی کے شاگرد حفیظ جونپوری کی دعوت پرجومپور گئے اور واپسی میں کانپور میں قیام کرتے ہوئے عظیم آباد واپس آئے۔
1897 میں شاد اپنی نانیہال پانی پت گئے۔وہاں نواب نظیر احمد خاں مرحوم کے مہمان رہے۔ واپسی میں دہلی گئے اور حالی کی فرمائش پر علی گڑھ گئے اور سرسید احمد خاں سے ملاقات کی۔ اور 2 دمسبر 1897 کو اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور مولود پڑھا۔ 1916 میں امیر مینائی کے شاگرد حفیظ جونپوری کی دعوت پرجومپور گئے اور واپسی میں کانپور میں قیام کرتے ہوئے عظیم آباد واپس آئے۔
شاد نے بہار میں شاعری اور نثر نگاری کو حیات دوام عطا کیا۔شاد نے عظیم آباد کی ادبی حیثیت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔شاد نے نظم و نثر کی چھوٹی بڑی کم و بیش 60 کتابیں چھوڑیں۔ غزلیں ، نظمیں، قطعات، مرثیہ نگاری،مثنوی غرض سبھی اصناف میں شاد نے طبع آزمائی کی ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نثر میں بھی ایک بڑا سرمایہ چھوڑا۔
غزلیات انتخاب کلام شاد مرتبہ حسرت موہانی، کلام شاد مرتبہ قاضی عبدالودود،ریاض عمر،میخانۂ الہام،زیور عرفان، لمعات شاد، مولود مراثی،ظہور رحمت(مولود جو علی گڑھ میں پڑھا گیا۔)، مراثی شاد(جلد اول و دوم)،سروش ہستی وغیرہ شاد کا شعری سرمایہ ہیں۔ نثری سرمایہ میں تاریخ بہار اور نقش پائیدار کی تین جلدیں شامل ہیں۔ ان کی سوانح حیات ’حیات فریاد‘ کئی بار چھپی۔ ان کے ناول صورت الخیال کو بھی کافی شہرت ملی۔اردو تعلیم، ارض فارس،صورت حال اور نصائح البیان کے علاوہ تذکرہ مردم دیدہ، تذکرة الاسلاف فارسی اورنوائے وطن تحریر کیا۔
اربیہ شرح قصیدہ،عرشیہ، متروکات،قدر کمال، الصرف النحو شاد کی دیگر کتابیں ہیں۔
کلام شاد کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی شاعری کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔رومانی، عرفانی، علم الکلام، فلسفیانہ شاعری،اخلاقی سماجی اور سیاسی شاعری۔ ان تمام تر موضوعات کو شاد نے اپنی غزلوں میں سمو دیا ہے۔
7 جنوری 1927 کو رات گیارہ بجے علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔ ان کا ذاتی مکان جو بعد میں شاد منزل کہلایا ان کا مدفن بنا۔
غزل
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم
اے شوق برا اس وہم کا ہو مکتوب تمام اپنا نہ ہوا
واں چہرہ پہ ان کے خط نکلا یاں بھولے ہوئے القاب ہیں ہم
کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم
اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم
غزل
شاد عظیم آبادی
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں
دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
سویرا ہے بہت اے شور محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں
ستایا آ کے پہروں آرزو نے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
0 comments:
Post a Comment