آخری قدم
لکھیے
نیک آدمی کی کہانی اینے لفظوں میں لکھیے
اس کہانی کا کوئی نیا عنوان لکھیے
غور کرنے کی بات :
* ”اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی۔ مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں ۔ جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صَرف کریں۔ خود ان کی اجرت یہ ہے کہ اس میں یہ بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔“
اس عبارت میں مصنف نے نیک لوگوں کی کتنی اچھی تعریف کی ہے کہ وہ نیک لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی ہے مغرور اور گھمنڈی نہیں ہوتے بلکہ اپنی دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے لیے اللہ کی امانت سمجھتے ہیں اور خود سادہ زندگی گزارتے ہیں۔
* ’’آؤ آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہترے لوگ برا برا کہتے تھے ۔“
یہ آپ کے سبق کا پہلا جملہ ہے۔ اس جملے میں لفظ ”برا“ دو بار ایک ساتھ آیا ہے۔ لفظ کے دو بار ایک ساتھ آنے کو تکرار کہتے ہیں جیسے ساتھ ساتھ بیٹھنا، بار بار کہنا، مزے مزے کی با تیں وغیرہ۔
ڈاکٹر ذاکر حسین
آؤ، آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہتیرے لوگ برا برا کہتے تھے اور مرنے کے بعد بھی اس کی نیکی کا حال بس وہی جانتے ہیں جن کے ساتھ اس نے بھلائی کی تھی۔ اور شاید بعضے تو ان میں سے بھی بھول گئے ہوں گے۔
اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں، جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صرف کریں۔ خود ان کی اُجرت یہ ہے کہ اس میں سے بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔
ہاں، تو یہ نیک آدمی بھی اپنی دولت سے خود بہت کم فائدہ اٹھاتا تھا۔ ایک صاف سے مگر بہت چھوٹے مکان میں رہتا تھا۔ گذی گاڑھے کے بہت معمولی کپڑے پہنتا تھا۔ اور کھانے کا کیا بتاؤں، کبھی چنے چاب لیے، کبھی مکا کی کھیلیں کھالیں ۔ ایک وقت ہنڈیا چڑھی تو تین وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا ۔ دوست احباب جنہیں اس کے حال کی خبرتھی طرح طرح سے اسے کھیل تماشوں میں ، رنگ رلیوں میں گھسیٹنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ بہانا کر کے ٹال دیتا تھا۔ آخر کوسب سے بڑا کنجوس مشہور ہو گیا ۔ اس کے دوست اسے ”میاں مکّھی چوس“ کہا کرتے تھے ۔ بعض دوست اس کی دولت کی وجہ سے جلتے تھے۔ وہ اسے اور بھی چھیڑتے اور بدنام کرتے تھے۔ مگر یہ دھن کا پکّا تھا۔ برابرچُھپ چُھپ کر چُپ چُپاتے اپنی دولت سے کسی نہ کسی مستحق کی مدد کرتا ہی رہتا تھا، اور اس طرح کہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اور زبان پر ذکر آنے کا تو ذکر ہی کیا۔
نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے پلتی تھیں ! کتنے یتیم اس کی مدد سے پڑھ پڑھ کر اچھے اچھے کاموں سے لگ گئے تھے ۔ کتنے مدرسے اس کی سخاوت سے چل رہے تھے۔ کتنے قومی کام کرنے والوں کو اس نے روٹی کپڑے سے بے فکر کر دیا تھا اور وہ یکسوئی سے اپنی اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے ۔ کئی شفاخانوں میں دوا کا سارا خرچ اس نے اپنے سر لے لیا تھا اور ہزاروں دکھی بیماروں کو بے جانے اس کے روپے سے روز آرام پہنچتا تھا ۔ لیکن مشہور تھا وہی”کنجوس مکّھی چوس، دنیا کا کتا، نہ اپنے کام آئے نہ کسی اور کے ۔‘‘ کوئی اس پر ہنستا تھا، کوئی خفا ہوتا تھا سب اسے برا سمجھتے تھے!۔
آدی کتنا ہی نیک ہو، دوسروں کے ہردم برا کہنے سےجی دُکھتا ہی ہے۔ اس کے دل کو بھی کبھی کبھی بڑی ٹھیس لگتی تھی، جھنجھلاتا تھا، آنکھوں میں آنسو بھر بھر آ تے تھے مگر پھر صبر کر لیتا تھا۔
اس کے پاس ایک خوب صورت سی کتاب تھی، چکنا چکنا موٹا کاغد، نیلے کپڑے کی سبک سی جلد، پشت پرسنہرے حرفوں میں لکھا ہوا ”حسابِ امانت‘‘۔ اس کتاب میں یہ اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا تھا۔ جس کو بھی کچھ دیا تھاسب اس میں درج تھا۔ کہیں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں لکھی گئی تھیں ۔ کسی یتیم کو پڑھنے کے لیے وظیفہ دیا ہے۔ 15 سال بعد تاریخ دے کر کیفیت کے خانے میں درج ہے ”اب احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے کے ناظم ‘‘ کتابوں کے ایک کاروباری کوسخت پریشانی کے زمانے میں دو ہزار روپے دیے ہیں ۔ کئی سال بعد کیفیت کے خانے میں لکھا ہے۔” آج خط آیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک نہایت صاف اور سادہ زبان میں لکھوا کر ایک لاکھ نسخے طلبہ میں مفت تقسیم کیے ہیں ۔ خدا جزائے خیر دے ۔“ دلّی کے ایک مدرسے کو ایسے وقت کہ اس کا کوئی مددگار نہ تھا دس ہزار روپے دیئے تھے۔ اندراج رقم کے سامنے کیفیت میں لکھا تھا۔”سالانہ رپورٹ پڑھی۔ ہر صوبے میں اس کی ایک ایک شاخ قائم ہوگئی ہے۔ اس صوبے میں تو گاؤں میں تعلیمی مرکز قائم کر دیے ہیں ۔ یہ کام نہ ہوتا تو اس ملک میں مسلمانوں کی تمدّنی ہستی کبھی کی ختم ہو چکی تھی ۔“ اسی قسم کے بے شماراندراجات تھے۔
اس کتاب کو یہ اکثر اٹھا کر پڑھنے لگتا تھا۔ خصوصاً جب کسی نادان دوست کی زبان سے دل دکھتا تو ضرور اس کتاب کی ورق گردانی کی جاتی تھی۔ اسے دیکھ کر کبھی کبھی مسکراتا بھی تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ مرتے وقت یہ کتاب ان لوگوں کے لیے چھوڑ جاؤں گا جو عمر بھر مجھے پہچانے بغیر میرا دل دکھاتے رہے۔ اس ارادے سے اسے بڑی تسکین ہوتی تھی ۔ سو سُنار کی ایک لوہار کی ۔ انھوں نے ہزار دفعہ میرا جی خون کیا ہے۔ میں ایک دفعہ اُنھیں ایسا شرماؤں گا کہ بس سرنہ اٹھے گا۔ یہ سوچتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ ہوتے ہوتے بڑھاپا آن پہنچا۔ بدن جواب دینے لگا۔ روز کوئی نہ کوئی بیماری کھڑی ہے۔ ایک دفعہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ سخت بیمار ہوا۔ بخار اور کھانسی ۔ ایک دن ، دودن ، تیسرے دن سینے میں سخت درد شروع ہوا۔ کوئی دو پہر غفلت رہی ۔ ہوش آیا تو سانس لینے میں بھی تکلیف ہوتی تھی ۔ نمونیا کا حملہ تھا اور سخت حملہ۔ شام سے حالت غیر ہونے لگی۔ بار بارغفلت ہو جاتی تھوڑی دیر کو ہوش آتا، پھرغفلت ۔ کوئی چار بجے کے قریب ہوش آیا تو اس کی سمجھ میں آ گیا کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جو سب کے لیے آتا ہے اور جس سے کوئی بھاگ کر بچ نہیں سکتا۔
چارپائی کے پاس ہی میز پر وہ نیلی خوب صورت کتاب ”حسابِ امانت“ رکھی تھی جسے ابھی بیماری میں بھی دو دن پہلے اٹھا کر پڑھا تھا۔ چند لمحے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ ایسے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ کتاب کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھانا چاہا کئی مرتبہ کی کوشش میں اسے مشکل سے اٹھا پایا۔ پھر کچھ سوچ میں پڑا گیا۔یہ عظیم الشان گھڑی اور یہ چھوٹا خیال.......................... ان کو شرما کر تجھے کیا ملے گا................................ تو اپنا کام کرچلا...................اپنے کام سے کام.................منزل آ پہنچی..................... آخری قدم کیوں ڈگمگائے؟ ........................ دونوں ہاتھوں میں کتاب تھامے ہاتھ تھر تھرارہے تھے جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اٹھایا ہو ۔ بڑی مشکل سے تکیے پر سے سر بھی کچھ اٹھایا اور ناتواں جسم کی ساری آخری قوت صَرف کر کے کتاب کو اس پاس والی بڑی انگیٹھی میں پھینک دیا جس میں کوئی ڈھائی بجے نوکر نے بہت سے کو ئلے ڈالے تھے اور میاں کو سوتا جان کر دوسرے کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔
کتاب جلنے لگی۔ اس کی نظر اس پر جمی تھی۔ جلد کے جلنے میں دیر لگی۔ پھر اندر کے کاغذوں میں آگ لگی تو ایک شعلہ اُٹھا۔ اس کی روشنی میں اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ دکھائی دی اور چہرے پرعجیب اطمینان ۔ ادھر موذّن نے اشہد انَّ مُحمّد الرَّسُول الله کہا۔ اور نیکیوں کے اس کا رواں سالار کی رسالت کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی امت کے اس نیک راہ رو نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔
معنی یاد کیجیے
بُہتیرے | : | بہت سارے |
سپرد کرنا | : | حوالے کرنا |
اُجرت | : | بدلہ ، معاوضہ |
موٹا جھونٹا | : | بہت معمولی ، جو سستا ہو |
دال دلیا | : | معمولی کھانا |
گزرکرنا | : | معمولی طریقے سے زندگی گذارنا |
گذی گاڑھے | : | ایک قسم کا معمولی موٹا کپڑا |
کھیلیں | : | کھیل کی جمع بھنا ہواناج جوچٹخ کرپھول گیا ہو |
احباب | : | ساتھی ، دوست |
رنگ رلیاں | : | عیش وعشرت |
دھن کا پکا ہونا (محاورہ) | : | ارادے کا پکا ہونا |
مکّھی چوس | : | بہت ہی کنجوس |
چپ چپاتے | : | خاموشی کے ساتھ، چھپ کر کسی کو بتائے بغیر |
مستحق | : | ضرورت مند، حقدار |
سخاوت | : | دوسروں پر زیادہ خرچ کرنا، در یا دلی |
قومی کام | : | قوم کی بھلائی کے کام |
یک سوئی سے | : | بہت توجہ کے ساتھ ، اطمینان |
سَر لینا | : | ذمّے لینا |
خفا | : | ناراض |
ٹھیس لگنا | : | دُکھ پہنچنا |
سُبک | : | نازک، ہلکی |
سوچیے اور بتائیے
1. نیک آدمی میں کیا خوبیاں تھیں؟
جواب: نیک آدمی اپنی دولت غریبوں اور مستحق لوگوں پر خرچ کرتا تھا۔ نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے گزر بسر کرتی تھیں ۔وہ کتنے ہی یتیم بچوں کی کفالت کرتا اور ان کے تعلیمی خرچ اٹھاتا تھا۔
2. لوگ اس نیک آدمی کو برا کیوں کہتے تھے؟
جواب: لوگ نیک آدمی کو اس لیے برا بھلا کہتے تھے کہ وہ اپنی سخاوت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتا اور اتنی دولت ہونے کے بعد بھی بہت سادہ زندگی گزارتا،معمولی کپڑے پہنتا، معمولی کھانا کھاتا۔ یہاں تک کہ وہ بہت کنجوس مشہور ہوگیا تھا۔
3. بعض لوگ اس کی دولت سے کیوں جلتے تھے
جواب: بعض لوگ اس کی دولت سے اس لیے جلتے تھے کہ وہ اسے رنگ رلیوں اور کھیل تماشے میں گھسیٹنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی ہی دھن میں لگا ر ہتا تھا۔
4. وہ نیک آدمی اپنی دولت کن کاموں پر خرچ کرنا چاہتا تھا؟
جواب: وہ نیک آدمی اپنی دولت بیواؤں کی مدد کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، مدرسے چلانے، بیماروں کے لیے شفاخانے کھلوانے اور دین کے فروغ پر خرچ کرتا تھا۔
5. وہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اس جملے کیا مطلب ہے؟
جواب: اس جملے کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی انتہائی خاموشی سے دوسروں سے چھپاکر مدد کرتا تھا۔
6. نیک آدمی''حسابِ امانت" میں کیا درج تھا؟
جواب: نیک آدمی ''حسابِ امانت'' میں اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا۔ اس نے جس کو کبھی بھی کچھ دیا تھا وہ اس کتاب میں درج تھا۔ کہیں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں درج تھیں۔ کسی یتیم کو تعلیم کے لیے وظیفہ دیا تھا تو پندرہ سال بعد کی تاریخ میں درج تھا کہ اب وہ احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے میں ناظم ہیں۔ کتابوں کے کاروباری کو ایک بار سخت پریشانی کے عالم میں دو ہزار روپے دیے تھے تو کئی سال بعد اس کی کیفیت میں لکھا کہ آج خط آیا ہے کہ اس شخص نے سیرت پاک کے ایک لاکھ نسخے طبع کرکے طلبہ میں مفت تقسیم کیے۔ غرض اس کتاب میں اس کی نیکی اور سخاوت کے تمام واقعات درج تھے۔
7. لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر نیک آدمی کیا کرتا تھا؟
جواب: لوگوں کی باتیں سن کر اس نیک آدمی کو سخت رنج پہنچتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ وہ تنہائی میں اپنی ڈائری حساب امانت کو پڑھتا جس سے اس کو قلبی سکون ملتا تھا۔
8. نیک آدمی کا ارادہ کیا تھا؟
جواب: نیک آدمی کا ارادہ تھا کا وہ اپنی کتاب حساب امانت لوگوں کہ لیے چھوڑ جائے گا تاکہ اس کے جانے کے بعد دنیا والوں کو اس کی نیکیوں کا علم ہو۔
9. نیک آدمی نے آخری وقت میں اپنے ارادے پر عمل کیوں نہیں کیا؟
جواب: آخری وقت میں اس آدی کو خیال آیا کہ کسی اور کو شرمندہ کرکے اسے کیا ملے گا۔ بلکہ اس کی زندگی بھر کی نیکی اس کے اس عمل سے ضائع ہوجائے گی۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس کا آخری قدم کیوں ڈگمگائے۔ اس نے کتاب کو ضائع کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی کتاب کو آگ کی انگیٹھی میں ڈال دیا۔
اس سبق میں لفظ امانت دار آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں امانت رکھنے والا۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں کے آگے دار لگاکر لفظ بنائیے
دم | : | دم دار |
سمجھ | : | سمجھ دار |
شان | : | شان دار |
عزت | : | عزت دار |
خبر | : | خبردار |
طرح | : | طرح دار |
وفا | : | وفادار |
ہوا | : | ہوا دار |
جان | : | جان دار |
خار | : | خار دار |
نیچے دیے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے
دُھن کا پکّا ہونا | : | وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ |
ٹھیس لگنا | : | امتحان کا نتیجہ دیکھ کر فرزانہ کے دل پر ٹھیس لگی۔ |
جی خون ہونا | : | اپنے گناہوں کو یاد کر اسلم کا جی خون ہو گیا۔ |
سر نہ اٹھنا | : | شرم کے مارے اسلم کا سر نہ اٹھ سکا۔ |
ٰحالت غیر ہونا | : | بھوک سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔ |
لکھیے
نیک آدمی کی کہانی اینے لفظوں میں لکھیے
اس کہانی کا کوئی نیا عنوان لکھیے
غور کرنے کی بات :
* ”اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی۔ مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں ۔ جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صَرف کریں۔ خود ان کی اجرت یہ ہے کہ اس میں یہ بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔“
اس عبارت میں مصنف نے نیک لوگوں کی کتنی اچھی تعریف کی ہے کہ وہ نیک لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی ہے مغرور اور گھمنڈی نہیں ہوتے بلکہ اپنی دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے لیے اللہ کی امانت سمجھتے ہیں اور خود سادہ زندگی گزارتے ہیں۔
* ’’آؤ آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہترے لوگ برا برا کہتے تھے ۔“
یہ آپ کے سبق کا پہلا جملہ ہے۔ اس جملے میں لفظ ”برا“ دو بار ایک ساتھ آیا ہے۔ لفظ کے دو بار ایک ساتھ آنے کو تکرار کہتے ہیں جیسے ساتھ ساتھ بیٹھنا، بار بار کہنا، مزے مزے کی با تیں وغیرہ۔
Buhut buhut shukria
ReplyDelete