اردو ادب کا ایک بڑا سرمایہ فیس بُک کی تیز رفتاری کے باعث قارئین کی نظروں سے مختصر مدت میں اوجھل ہوجاتا ہے۔ آئینہ نے فیس بُک کے سمندر سے چنندہ تخلیقات کو اپنے قارئین اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان جواہر پاروں کو آئینہ صاحبِ قلم کے شکریہ کے ساتھ اپنے ویب صفحہ پر شامل اشاعت کر رہا ہے۔(آئینہ)
اسرار جامعی کی یاد میں
عمیر منظر
اسرار جامعی کا تعلق بہار کے شاہو بگہہ گیا سے تھا مگر ایک مدت سے انھوں نے دلی میں سکونت اختیار کررکھی تھی.
اسرار جامعی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کی تھی. ڈاکٹر ذاکر حسین ،عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب ان کے اساتذہ میں شامل تھے جیسا کہ اسرار جامعی نے اپنے مجموعہ کلام شاعر کے انتساب میں لکھاہے.
شاعر اعظم ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو 1996 میں شائع ہوا.
اسرار جامعی کا اصل نام سید شاہ محمد اسرار الحق تھا.
ابتدا میں انھوں نے شاعری میں شفیع الدین نیر صاحب سے اصلاح لی اس کے بعد رضا نقوی واہی کے حلقہ تلمذ میں شامل ہو گئے.
اسرار جامعی اوکھلا سے پارلیمانی الیکشن میں ایک بار آزاد امیدوار بھی رہے. جس میں وہ جیت تو نہیں سکے مگر ان کی شاعری کا چرچا خوب رہا. اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی اخبارات میں ان کی شاعری اس زمانے میں تصویر کے ساتھ شائع ہوئی.
اسرار جامعی بہت بیباک اور نڈر تھے. بہار سے لے کر دلی تک ان کی جرات کے بیشمار واقعات اور قطعات ہیں. ٹاڈا قانون پر نظم کہی اور کانگریس کی افطار پارٹی میں اس وقت کے وزیر داخلہ ایس بی چوہان کے سامنے سر محفل نظم سنانی شروع کردی اور اس وقت تک سناتے رہے جب تک نظم نہ ختم ہوئی. اگلے روز افطار پارٹی کی خبر کم اور اسرار جامعی کی نظم کی خبر باتصویر دلی کے تمام اخبارات میں شائع ہوئ. ایک شعر بہت نقل ہوا،
گر مونچھوں والا کوئی پکڑائے تو نہ پکڑو
گر داڑھی والا آیا ٹاڈا میں بند کردو
وزیر داخلہ کو یہ ماننا پڑا کہ ٹاڈا کا غلط استعمال ہورہا ہے. اس کی تفصیل دی نیشن اینڈ دی ورلڈ میں دیکھی جاسکتی ہے واضح رہے کہ اس وقت اس کے ایڈیٹر سید حامد صاحب تھے.اس کے علاوہ وی پی سنگھ، راجیو گاندھی اور چندر شیکھر کے سامنے بھی بے خوف اور نڈر ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کیا.
چٹنی اور پوسٹ مارٹم کے نام سے مزاحیہ صحافت ان کا ایک اہم کارنامہ ہے. شاعری اور نثر کے علاوہ کارٹون بھی مزاحیہ صحافت کا حصہ تھے.
بروقت اور برمحل اشعار کہنے میں انھیں ید طولیٰ حاصل تھا. پروفیسر عبدالمغنی کی کتاب اقبال کا نظام فن کی تقریب اجرا میں علامہ اسرار جامعی کا ایک قطعہ کتاب سے زیادہ مشہور ہوا. اس تقریب میں پروفیسر مغنی کی جہاں دیگر ارباب ادب نے تعریف و توصیف کی تھی خود عبد المغنی صاحب نے اس کتاب کے لیے اپنی تعریف کی تھی. اجرا کے بعد جب مشاعرہ شروع ہوا تو اسرار جامعی کے ایک قطعہ نے رسم اجرا کی پوری بساط ہی لپیٹ دی.
اک دن کہیں پہ شاعر مشرق ملے مجھے
دیکھا تو بدحواس و پریشان و پرمحن
پوچھا کہ خیریت تو ہے حضرت یہ حال کیا
بولے کہ مل گیا ہے اک استاد دفعتاً
اس دم عظیم آباد کی جانب رواں ہوں میں
جی چاہتا ہے سیکھ لوں اپنا نظام فن.
وہ سراپا مزاح تھے اور اس کا موقع فراہم کرتے رہتے تھے. جب تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹور پر ڈاک خانہ رہا ان کا پتا سب کو یاد رہا.اسرار جامعی
پوسٹ بکس نمبر 1
جامعہ نگر، نئی دہلی
ڈاک خانے کے ملازم ان کی ساری ڈاک آفس کے ایک کنارے لگا دیتے اور یہ خود پہنچ کر اٹھا لیتے. یہی اپنا پوسٹ بکس خود ہی تھے.
گھر کے دروازے پر قلم اور کاغذ لٹکا رہتا. آپ جائیں اور اگر اسرار صاحب نہ ملیں( اکثر نہیں ملتے تھے) رقعہ چھوڑ دیں وہ تلاش کرکے آپ سے مل لیں گے. اس زمانے میں موبائل نہیں تھا مگر جامعی صاحب چلتا پھرتا موبائل تھے او دن بھر ملاقاتیں کرتے رہتے تھے. یہ زمانہ کمپیوٹر کا نہیں بلکہ ٹائپ رائٹر کا تھا. اس زمانے میں اسپیڈ دیکھنے کے لیے طرح طرح کے جملہ لکھے رہتے تھے اور اس سے ٹائپنگ کی رفتار طے کی جاتی تھی. اسرار جامعی نے اپنی ذہانت سے ایک جملہ ایسا بنادیا کہ اسے دور دور تک شہرت ملی.
اردو ٹائپنگ کوڈ کے الفاظ کی یہ تخلیق شاعر طنز و مزاح اسرار جامعی کی غضب کی ذہانت اور خلوص کی بڑی اچھی مثال ہے
اس جملے میں کل پچیس الفاظ ہیں ایک منٹ میں ٹائپ کرنے والی کی اسپیڈ فی منٹ پچیس الفاظ کی ہوگی.
(باقی آئندہ)
ہر روز ملتے تھے لیکِن چہرہ پر خوشیوں کا صفت نہیں دیکھا
ReplyDeleteہم نے سمجھا سبھی کے رہتے ہوئے بھی اسرار جامع یتیم تھے
✓وصی احمد قادری✓
ذاکر نگر ، جامع نگر ، نئی دہلی