دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
بہار و بنگال وجھارکھنڈ کے لوگوں کے لیے شوال المکرم کا چانددوہری خوشیاں لے کر آتا ہے۔ایک تو عید کی خوشی دوسرے بہار کے مشہور بزرگ حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری ؒ کے سالانہ عرس مبارک جسے عرف عام میں ”چراغاں“ کہا جاتا ہے میں شرکت کی خوشی۔ لوگوں کو سال بھر چراغاں کی آمد کا انتظار رہتا ہے اور عرس مبارک کی تقریبات نہایت تزک و احتشام سے ادا کی جاتی ہیں۔کل جیسا کہ اندازہ تھا یہ خبر ملی کہ اس سال کورونا جیسی مہلک وبا کی وجہ سے اس سال عرس میں عوامی شرکت کو ممنوع قرا دیا گیا ہے تو دل پر ایک عجیب سی اداسی چھا گئی اور ذہن کے پردے پرحضرت مخدوم جہاںؒ کی بارگاہ سے نسبت اور خانقاہ معظم کے سجادگان کی ہما رے بزرگوں اور ان کی اولاد پر نگاہ شفقت و عنایت نظروں کے سامنے گھومنے لگیں۔ کیا وقت تھا اور کیسے کیسے لوگ تھے۔وقت کی سوئی مجھے برسوں قبل لے گئی جب میں چھوٹا تھا۔ اس زمانے کی بہت ساری باتیں اب یاد نہیں لیکن جو باتیں اتنی دلپذیر ہوں کہ آپ کے دل و دماغ پر ثبت ہوجائیں تو وہ یادیں گردش زمانہ سے آپ کی نظروں سے مدھم تو ہوجاتی ہیں لیکن ایک ہلکی سی ہوا بھی اس گرد کو صاف و شفاف کر دیتی ہے۔ بچپن کے دن تھے کہ والد ماجد جنہیں ہم بھائی بہن ابّا جان کہہ کر مخاطب کرتے سے یہ اطلاع ملی کہ سجادۂ مخدوم جہاں جناب حضورحضرت سیدشاہ سجاد فردوسی ؒ جھریا تشریف لا رہے ہیں۔میرے والد کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ہم سب کو حضرت مخدوم جہاںؒ کی غلامی کا شرف حاصل تھا اور میرے والد حضرت مخدو م جہاں کے سلسہ فردوسیہ کی ایک خانقاہ کے سجادہ نشیں اور ایک بلند پایہ بزرگ تھے۔اُن کا حضرت مخدوم جہاں اور ان کے سجادہ نشیں سے عشق کا یہ عالم تھا کہ یہ خبر سن کرمقامی لفظوں میں بولائے بولائے پھرتے تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اپنے گھر لائیں تو ان کو کہاں اٹھائیں اور کہاں بٹھائیں۔خبر ملی تھی کہ جھریا میں سب سے پہلے ان کی آمد محلہ کے ایک ذی حیثیت شخص جناب محمود صاحب کی رہائش گاہ پر ہوگی۔غالباً عصر کے قریب اُن کے آنے کا پروگرام تھا۔ جیسے جیسے اُن کی آمد کا وقت قریب ہورہا تھا والد محترم کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی ۔خدا خدا کرکے عصر کا وقت ہوا اور والد محترم حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانیؒ محمود صاحب کے مکان پر جناب حضور کی دست بوسی کے لیے نکل پڑے۔ ہم سب بھائی بھی ساتھ تھے۔ دل میں ایک عجیب سی تڑپ تھی کہ جس عظیم شخصیت کی دست بوسی و قدم بوسی کے لیے جارہے ہیں وہ شخصیت دیکھنے میں کیسی ہوگی۔ دماغ میں ایک تصویر تھی کہ بہترین لباس میں کوئی شخصیت ہوگی جو جبہ و دستار سے لیس ہوگی ۔اب تک ہم نے جھریا کے جلسوں میں ایسی ہی شخصیتیں دیکھی تھیں۔جب ہم سب وہاں پہنچے تو جناب حضور (سجادۂ مخدوم کے لیے ہمارے یہاں احتراماً یہی لفظ رائج تھا جو آج بھی اسی طرح باقی ہے۔اللہ تعالیٰ اس نسبت کو تا قیامت ایسے ہی قائم رکھے)عصر سے فارغ ہوکر مریدوں کے درمیان تشریف فرما تھے۔والد محترم اُن کی جانب بے تابانہ بڑھے اور وہ بھی گرم جوشی سے ابّا جان سے ملنے کی خاطراُن کی جانب متوجہ ہوئے دست بوسی کے بعد ہم سب نے باری باری جناب حضور کی دست بوسی کا شرف حاصل کیا۔ اُن کا چہرہ فرط مسرت سے چمک رہا تھا۔انتہائی صاف ستھرا لباس غالباً اچکن کا انگرکھا نما کرتا تھا۔اور شانے پر ایک بڑا سفید رومال اور سر پر بہار شریف کی ایک خاص انداز کی ٹوپی جو ذرا سی کج رہتی ہے۔یہی لباس آج بھی سجادگان مخدوم کا تین پشتوں سے پسندیدہ لباس ان آنکھوں نے دیکھا ہے۔ذہن میں جو تصویر تھی وہ ایک لمحہ میں غائب ہوگئی سامنے ایک ایسی شخصیت تھی جس کے چہرے پر اپنے پن کا ایک ایسا احساس تھا کہ جیسے وہ اپنے عزیزوں سے مل رہے ہوں۔اتنی بڑی بارگاہ کے سجادہ کی ہم جیسے غلاموں پر یہ نظر عنایت یقیناً ایک بڑا کرم تھا جس کا نشہ آج بھی قائم ہے۔ایسی باوقار اور کم گو شخصیت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مزاج میں خاموشی ایسی تھی کہ جیسے جسم کا رواں رواں بول رہا ہو۔اور سامنے والا اپنے دل کے کانوں سے اس آواز کو سن رہا ہو۔ ایسی روحانی مجلس میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا۔ ہم سب با ادب فرش پر دو زانو بیٹھے تھے اور قلب کی صفائی و ستھرائی کا کام جاری تھا ،نہ کسی وعظ کی ضرورت تھی اور نہ وظیفہ کی تلقین۔ بس خاموش فیض سے دل و دماغ سرشار ہو رہا تھا۔وہاں سے اٹھنے کا دل نہیں تھا لیکن جناب حضور کو بھی شاید کہیں اور جانا تھا۔ بہرحال والد محترم نے دوسرے دن اپنے غریب خانے”دارلشرف“ تشریف لانے کی دعوت دی جو فوراً قبول کرلی گئی۔جناب حضور حضرت سجاد فردوسی ؒ کے ساتھ اُن کے پوتے موجودہ سجادہ نشیں جنابحضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ جنہیں ہم سیفو بابوکہا کرتے، بھی تشریف لائے تھے جو اس وقت کافی کمسن تھے۔دوسرے دن جناب حضور ہمارے غریب خانہ پر تشریف لائے اور پھر کھانے وغیرہ کےبعد گفتگو کا دور شروع ہوا۔ اس بات کا ذکر ہوا کہ موجودہ وقت میں لوگ خانقاہوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ خانقاہوں میں اب عالم کم ہوتے جارہے ہیں لہذا ظاہری طور پر زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے بچّوں کو بڑے دینی مدرسوں میں بھیجا جائے۔اس زمانے میں ندوة العلما اپنے معتدل نظریے کےسبب زیادہ مقبول تھا۔اور سملہ خانقاہ سے وابستہ افراد وہاں زیر تعلیم رہ چکے تھے اور کچھ تعلیم حاصل کر رہے تھے جن میں خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کے موجودہ سجادہ نشیں برادر محترم شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی بھی شامل ہیں۔ تذکرہ جناب حضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ کی تعلیم کا تھا۔ والد ماجد نے فرمایا ”حضور سیفو بابو کو بھی ندوہ بھیج دیا جائے وہاں غلام پہلے سے موجود ہے کوئی تکلیف نہ ہوگی۔“اشارہ برادر محترم تسنیم عثمانی فردوسی کی جانب تھا۔جناب حضور فوراً والد ماجدکی طرف متوجہ ہوئے اور کہا” غلام نہیں ، بھائی کہیے“ بہر حال مشورہ قبول کیا گیا اور والد ماجد کے کہنے پر جناب حضور سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوہ بھیجا گیا جہاں سے آپ نے سند فراغت حاصل کی۔
ماشاءاللہ
ReplyDeleteبہت عمدہ معلومات
حسین پیرایۂ بیان
آنکھوں نے بھینگ بھینگ کر پڑھا
کانوں نے سراپا سماعت بن کر سنا
دل جھومتا رہا
روح رقصاں رہی
بزرگوں کی باتیں بزرگوں کے حوالے سے بزرگوں کی زبانی
بس
میں صدقے ، میں قربان
جزاکم اللہ خیرا
رضوان حیدر فردوسی
جزاک اللہ
Deleteدل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ تحریر ہر اس دل کے تاروں کو چھیڑ گئ جس میں مخدوم جہاں کی محبت موجود هے
ReplyDeleteشکریہ۔ براہِ کرم اپنا نام لکھیں۔
Delete