آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday, 19 May 2020

Hazrat Nuh or Noah A.S. by Allama Rashid ul Khairi

حضرت نوح علیہ السلام

حضرت نوح بن الامک حضرت ادریس کے پڑپوتے تھے اور حضرت ادریس حضرت شیث کے پوتے پڑپوتے تھے۔ اللہ کے یہ سب نیک بندے اپنی زندگی بھر لوگوں کو راہ راست پر بلاتے رہے اورخدا کی باتیں سمجھاتے رہے۔ حضرت ادریس کے انتقال ہوجانے پر تمام قوم گمراہ ہوگئی اورایسی گمراہ ہوئی کہ کبھی بھول کر بھی خدا کا نام نہ لیتی تھی۔ دن رات بت پرستی کرتے تھے۔ یوں تولاتعداد بُت ان لوگوں نے بنائے تھے۔ حضرت نوح اپنی اس قوم کو ہر وقت توحید کی طرف بلاتے اور شرک و بُت پرستی سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ۔ مگران کے دلوں پر کچھ ایسی مہر لگی ہوئی تھی کہ وہ حضرت نوح کی باتوں پر ہنستے اور مضحکہ اڑاتے۔ گنتی کے چند آدمی جوان پر ایمان لائے تھے ان کو بھی چھیڑتے اورکمینہ بےوقوف کہتے۔ حضرت نوح اپنی طرف سے ان لوگوں کو بہترا سمجھاتے مگر ان پر خاک اثر نہ ہوتا۔ آخر حضرت نوح نے ایک موقعہ پر ان سے کہا کہ ”یاد رکھو اگر تم نافرمانی کروگے تو عذاب الٰہی تم  کو تباہ کر دے گا“ یہ سن کر قوم نے قہقہہ مارا اور کہا کہ نوح وہ عذاب تم بلوادو، ہم بھی دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ یہ کہہ کر حضرت نوح کو مارنا شروع کیا اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہوگئے اور بدن سےخون  بہنے لگا۔ جب ہوش میں آئے تو خدا سےعرض کیا :
(ترجمہ) اے رب میں اپنی قوم کو رات دن بُلاتا رہا اور میرے بُلانے سے اور زیادہ بھاگتے رہے۔
اس دعا کے بعد حضرت نوح خاموش بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں نے آوازے کسنے شروع کئے اوربرا بھلا کہا۔ حضرت نوح نے ٹھنڈے دل سے ان کے مظالم برداشت کئے۔ مگرجب پورا یقین ہوگیا کہ یہ راہ راست پر نہیں آئیں گے تو خدا سے کہا ”الٰہی اب میں تھک گیا۔ یہ تو ایمان لانے والے نہیں۔ اپ تو ان کو ایسا تباہ و برباد کر کے ایک بچّہ تک باقی نہ رہے۔
یہ دعا قبول ہوئی اور حضرت نوح کو حکم ہوا کہ بس جو ایمان لے آئے وہ لے آئے اب تو خاموش ہوجا اور رنج ذہ کر اور اب ایک بہت بڑی کشتی بنا۔ مگر یہ یاد ر ہے کہ توان گنہگاروں کے متعلق ہم سے ہرگز ہرگز کچھ نہ کہیو۔ ہم اب سب کو ڈبوتے ہیں-
حضرت نوح کی یہ دعا:۔
(ترجمہ) اے رب زمین پر ایک مُنکر کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔
خدا کے حضور میں قبول ہو چکی تھی۔ جب کشتی تیار کرنے کا حکم ہوا تو وہ حکم کی تعمیل میں مشغول ہوئے اور کشتی بنانے لگے ۔ قوم کے لوگ جب ادھر سے گذرتے اور ان کو دیکھتے ، تو کہتے ” اب اس کے دیوانے ہونے میں کیا شک ہے کہ خشکی میں کشتی بنارہا ہے؟ حضرت نوح  چپکے چپکے بیٹھے اپنا کام کرتے اور لوگوں کے کہنے سننے کی مطلق پرواہ نہ کرتے اور فرماتے۔ تمہارے ہنسنے  کا وقت ختم ہورہا ہے اور میرے ہنسنے کا وقت آ رہا ہے۔المختصر حضرت نوح کی کشتی تیار ہوئی تو پندرہ گزاونچی 25 گز چوڑی اور ڈیڑھ سو گز لمبی تھی۔
کشتی تیار ہوگئی اور خدا کے عذاب کا وقت آ پہنچا۔ بارش شروع ہوئی اور اس قدر مینہ برسا کہ الامان والحفیظ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پر سوا پانی کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ اب قوم پریشان ہوئی اور جب یہ دیکھا کہ طوفان سر پر آ پہنچا اور سب ڈوب جائیں گے تو حضرت نوح کے پاس پناہ لینے کے لئے دوڑے آئے۔
حضرت نوح کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ جس روز تنور سے گرم پانی اُترے گا اسی روز خدا کا قہر شروع ہو جائے گا۔ چنانچہ جب ایک دن ان کی بیوی روٹی پکا کر اٹھیں تو تنور ابلنا شروع ہوا۔ اب ادھر توکشتی تیار ہوگئی ادھر آسمان و زمین اژدہے کی طرح ان لوگوں کو نگلنے کے لئے تیار ہوئے جو خداا کی نافرمانی کررہے تھے اور خدا کے سچے  بندے نوح کوجُھٹلا رہے تھے۔ حضرت نوح نے اپنی بیوی اور تین لڑکوں کویعنی سام،حام اور یافث کو مع ان کے اہل و عیال کے کشتی میں بٹھایا۔ پانی کا یہ حال تھاکہ کسی طرح تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان میں چھید ہوگئے ہیں اور اب کسی طرح پانی نہ رکے گا ۔ حضرت نوح جب کشتی میں بیٹھ گئے تو انہوں نے اپنے چھوٹے لڑکے کنعان کو ڈوبتے دیکھا۔
اس لڑکے کی بابت اک فریق کا یہ خیال ہے کہ یہ ان کا اپنا بیٹا نہ تھا۔ بلکہ ان کی بیوی کا بھتیجا یا بھائی تھا۔ اور حضرت نوح اس سے بھی بیٹوں ہی کے برابر محبت کرتے تھے اوربیٹا ہی کہتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی اس کو بیٹا ہی کہا گیا ہے۔ جس وقت بیٹا ڈوبنے لگا، تو حضرت نوح علیہ السلام نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ کشتی میں آجا ۔ مگر وہ بدنصیب چونکہ پرلے سرے کا نافرمان اورگستاخ تھا کہنے لگا :
آپ گھبرائیے نہیں میں تیر کر نکل آؤں گا۔ اب حضرت نوح نے آسمان کی طرف دیکھا اور خدا سے عرض کیا کہ ” رب العالمین تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میرے اہل وعیال محفوظ رہیں گے ۔ تیرا وعدہ سچا ہے اور یہ لڑکا میرے اہل وعیال میں سے ہے۔ اس کو بچا۔ اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ خدا کی طرف سے  حکم ہوا کہ اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا ایمان تیرے موافق نہیں اسی عرصہ میں پانی کی ایک موج آئی اور اس نے حضرت نوح کی نگاہوں سے کنعان کو اوجھل کردیا۔ حضرت نوح نے خدا کے حکم کے بموجب کشتی میں جانوروں کا ایک جوڑا ار کھانے
پکانے کا سامان رکھ لیا تھا۔ کیونکہ خدا یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اس کشتی کے سوا آدم کی اولاد میں کوئی شخص اور کوئی جانور زندہ نہ رہے گا۔ کشتی پانی میں چلی اور قریب قریب ڈیڑھ مہینہ چلتی رہی۔ زمین سمندر بن چکی تھی مگر آسمان کا پانی کسی طرح نہ تھمتا تھا۔ جب حضرت نوح کی یہ دعا کہ الٰہی ایک کافر کو بھی زمین پرزنده نهچھوڑ قتبول ہوچکی تو پانی کا زور کم ہوا اوریہ کشتی  جودی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری جواب ارارلٹ کے نام سے مشہور ہے اور عراق میں موصل کے قریب ہے۔
اس وقت حضرت نوح نےایک کبوتر کو چھوڑا وہ دن بھر اُڑ اُڑا  کر شام کو کشتی میں آگیا۔ حضرت نوح کو معلوم ہوگیا کہ ابھی تک روئے زمین پر خشکی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ایک ہفتہ راہ دیکھنے کےبعد نوح علیہ السلام نے کبوتر کو پھر چھوڑا وہ واپس آیا اور اس سے معلوم ہوگیا کہ پانی کم ہونا شروع ہوگیا اور درختوں کی پتیاں نمودار ہرہی ہیں اس کے کچھ دنوں کے بعد حضرت نوح نے پھر کبوتر چھوڑا وہ واپس نہ آیاا۔ اوراب حضرت نوح کو معلوم ہوگیا کہ زمینپر ٹھہرنے کی جگہ ہوگئی ہے۔
چنانچہ حضرت نوح زمین پراترے اور انھوں نے اپنی کشتی کو توڑا۔ اس کی لکڑیوں سے اور پہاڑ کی مٹّی  اور پتھروں سے ایک مسجد جودی پہاڑ پر بنائی اورخود بھی وہیں آباد ہوئے اس جگہ کا نام شانین ہوا۔ جس وقت یہ طوفان نازل ہوا ہے اس وقت حضرت نوح کی عمر چھ سو برس کی تھی ۔ اس کے بعد وہ ساڑھے  تین سوبرس اور زندہ رہے اور نو سو برس کی عمر میں انتقال کیا ۔
دنیا میں اس وقت جتنی آبادی ہے ۔ وہ حضرتنوح کی اولاد ہے. سام کے نام پر شام مشہور علاقہ ہے عراق وغیرہ کی طرف انھیں کی اولاد پھیلی۔ہندوستان کے لوگ اور یورپ کی قومیں یافث کی نسل سے ہیں اور مصر اور افریقہ کی قومیں حام کی اولاد ہیں۔
(علامہ راشد الخیری)

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری