جب شداد اور اس کی قوم کے آدمی تباه تاراج ہو چکے تو پھر لوگوں نے سر کشی اختیار کی۔ عاد کے بعد ثمود کی قوم پیدا ہوئی، یہ لوگ بھی اپنی تجارت وغیرہ میں اچھی طرح کامیاب ہوکر دولت مند ہو گئے۔ اونچے اونچے مکان اور باغات کے مالک بنے۔ اور رات دن بُرے بُرے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ مال کے نشہ نے ان کو اندھا کردیا اور وہ ہرقسم کے گناہوں میں گرفتار ہو گئے۔ جس طرح خدا کا دستور رہا ہے اسی طرح ان میں سے بھی خدا نے ایک شخص کو اپنا بنا لیا۔وہ حضرت صالح علیہ السلام تھے۔ جو ان لوگوں کو ان کے اعمال پر تنبیہ کرتے ۔ ان کو خدا کا راستہ بتاتے ۔ لیکن صالح علیہ السلام کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں ۔ یہ لوگ بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ اور خدا کو خدا نہ سمجھا ۔ یہ قوم دن دونی اور رات چوگنی بے غیرتی اور بے حمیتی میں ترقی کرتی گئی۔
ایک موقع پر جب حضرت صالح علیہ السلام قوم کو خدا کی باتیں بتا رہے تھے۔ لوگوں نے ان کی ہنسی اڑائی - اور کہا”تو دیوانہ ہوگیا ہے ۔ اور۔ چاہتا ہے کہ ہم بھی تیری طرح سِڑی اور پاگل برہوجائں۔ اگر تیرا خدا کوئی ہے تو ہم کو دکھا اور اگر اس کو نہیں دکھاتا اور تو سچّا ہے تو تیرا خدا بھی سچّا ہے تو اس کا کوئی معجزہ دکھانا کہ ہم اس پر ایمان لائیں۔ ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم سب مل کر یا تو تجھے مار ڈالیں گے ، یا اپنی بستی سے نکال دیں گے کہ تیراجھگڑا پاک ہو اور ہم اس عذاب سے نجات پائیں۔“
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا” تو تم مجھ کو بتاؤ کہ کیا دیکھنا چاہتے ہو جو معجزہ تم کہو میں اپنے خدا سے دعا کروں اور وہی معجزه تم کو دکھا دوں۔“
سب نے سوچ کر اور آپس میں مشورہ کر کے کہا ”اگر تو سچّاہے تو اسی وقت اس پتھرسے جو سامنے ہے ایک اونٹنی پیدا ہو اور ہمارے سامنے آکر بچّہ دے اور وہ دودھ دے تو ہم تم کو سچّا پیغمبر یقین کریں ۔“ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا : ”اچھا میں خدا سے دعا کرتا ہوں ۔ مگرشرط یہ ہے کہ تم ا ونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا۔وعدہ کر لیا تو حضرت صا لح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی۔ یہ دعا فورا ً قبول ہوئی اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا تم اب میری سچائی کا ثبوت دیکھو۔ مگر اپنی شرط ہمیشہ یاد رکھنا ۔ کہ اونٹنی کو تکلیف نہ ہو۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم پر سوا اس کے دودھ کے اورکوئی چیز حلال نہیں ۔
دفعتاً ایک آواز سخت اس پتھرسے نکلی اور تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت اونٹنی برآمد ہوئی ۔ جس نے سب کے سامنے بچّہ دیا۔ اس کے ساتھ تھوڑی سی سبز گھاس بھی تھی ، جو اس نے کھائی ۔ اس کے پاس ہی ایک چشمہ بھی دکھائی دیا اور ایک چراگا ہ جہاں رہ کرگھاس چرتی اور پانی پیتی رہی ۔لوگ اسی اونٹنی کا دودھ خود پیتے تھے اوربھر بھر کر اپنے گھر لے جاتے تھے ۔ حضرت صالح نے لوگوں سے کہا کہ اس کنویں کا پانی خدا کے حکم سے ایک روز کے واسطے تمہارا ہے اور ایک روز اونٹنی کا ۔ تم لوگ باری باری پانی لو مگر جس دن دودھ نہ دوہو اس روز اس او نٹنی کو پانی پینے دو،تم اس روز پانی کا ایک قطره بھی نہ لو۔ دیکھو یہ اللہ کی نشانی ہے۔ اگر
تمھارے ہاتھوں اس کو کوئی تکلیف پہنچی توخدا کا عذاب تم پر نازل ہو گا۔ میں پھر تم کو سمجھاتا ہوں کہ تم اپنے مولا سے ڈرو اور اس کے عذاب سے محفوظ رہو۔
ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا اور خلق اللہ اس اونٹنی سے فائدہ اٹھاتی رہی ۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ چند آدمی جن کی تعداد دس تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ عنقریب ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے ، جس کی وجہ سے یہ قوم تباہ ہوجائے گی ؟ چنانچہ جب یہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام قُدار تھا۔ تو لوگوں نے اس کو نگاہ میں رکھا ۔ یہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے ساتھ ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا یا ۔ اور شراب پی کر طے کیا کہ اونٹنی کو مار ڈالیں ۔ جس وقت اونٹنی پانی پی رہی تھی ان لوگوں نے حملہ کیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر تو سچّا ہے تو اب ہم کو کوئی عذاب دکھا ۔ ہم نے تیری اونٹنی کو سزا دی ۔ اگر کوئی عذاب نہ آیا تو یاد رکھ تیری بھی تکاّ بوٹی کر دیں گے۔
حضرت صالح علیہ السلام کچھ دیر خاموش رہے اور اپنی اونٹنی پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے اونٹنی کی طرف دیکھا ۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا:
”اے قوم ثمود ،میں نے اپنی طرف سے تم کو سمجھانے اور خدا کی طرف بلانے میں کسر باقی نہ چھوڑی ۔لیکن میری بدقسمتی نے تم کو سیدھے راستے پر نہ آنے دیا۔ تونے میری ہنسی اڑائی، برا بھلاکہا اور میری ایک بات نہ سنی ۔ اب میں تم کو خبردار کرتا ہوں کہ تمہارے کہنے کے موافق میں نے خدا سے عذاب کی دعا کی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ میرا خدا میری دعا قبول کرے گا۔ تم پر اس کا عذاب نازل ہو گا۔ توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے ۔ اگر اس وقت بھی تم اپنے کئے پرپچھتاؤ گے اور سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف صاف بڑھوگے تو اُس کے عذاب سے بچے رہوگے۔ آگے تم کو اختیارہے۔“
اس کے جواب میں قوم ِثمود نے قہقہہ لگایا اور کہا صا لح علیہ السلام کیسا عذاب کس کا عذاب ،ان باتوں میں ہم آنے والے نہیں ہیں۔ اس لغویت کو اپنے پاس رکھو اور عذاب کا خوف کسی اور قوم کوسُناہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ”تم پر ایک چنگھاڑ کا عذاب نازل ہو گا ۔یعنی آتشی چنگھاڑ کہ کان کے پردے پھٹ جا ئیں گے اور تم مر جاؤ گے۔“
یہ سن کر ان بے وقوفوں نے نے اپنے کانوںمیں روئیاں ٹھونسیں اور روز خبریں رکھیں کہ کسی طرح چنگھاڑ سے محفوظ رہیں مگرجب خدا کا حکم قریب پہنچا توبھونچال یعنی زلزلہ شروع ہوا۔ اور بہت زور زور کی آوازیں نکلیں اور اس قیامت کی کہ سوائے ان لوگوں کے، جو حضرت کے ساتھ تھے باقی جس قدرتھے تباه و تاراج ہوگئے۔اس طرح قوم ِ ثمود اپنی نا فرمانی کی وجہ سے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئی ۔
حضرت صالح اس قوم کی یہ کیفیت دیکھ کرشام کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں رہنے سہنے لگے۔
ایک موقع پر جب حضرت صالح علیہ السلام قوم کو خدا کی باتیں بتا رہے تھے۔ لوگوں نے ان کی ہنسی اڑائی - اور کہا”تو دیوانہ ہوگیا ہے ۔ اور۔ چاہتا ہے کہ ہم بھی تیری طرح سِڑی اور پاگل برہوجائں۔ اگر تیرا خدا کوئی ہے تو ہم کو دکھا اور اگر اس کو نہیں دکھاتا اور تو سچّا ہے تو تیرا خدا بھی سچّا ہے تو اس کا کوئی معجزہ دکھانا کہ ہم اس پر ایمان لائیں۔ ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم سب مل کر یا تو تجھے مار ڈالیں گے ، یا اپنی بستی سے نکال دیں گے کہ تیراجھگڑا پاک ہو اور ہم اس عذاب سے نجات پائیں۔“
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا” تو تم مجھ کو بتاؤ کہ کیا دیکھنا چاہتے ہو جو معجزہ تم کہو میں اپنے خدا سے دعا کروں اور وہی معجزه تم کو دکھا دوں۔“
سب نے سوچ کر اور آپس میں مشورہ کر کے کہا ”اگر تو سچّاہے تو اسی وقت اس پتھرسے جو سامنے ہے ایک اونٹنی پیدا ہو اور ہمارے سامنے آکر بچّہ دے اور وہ دودھ دے تو ہم تم کو سچّا پیغمبر یقین کریں ۔“ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا : ”اچھا میں خدا سے دعا کرتا ہوں ۔ مگرشرط یہ ہے کہ تم ا ونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا۔وعدہ کر لیا تو حضرت صا لح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی۔ یہ دعا فورا ً قبول ہوئی اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا تم اب میری سچائی کا ثبوت دیکھو۔ مگر اپنی شرط ہمیشہ یاد رکھنا ۔ کہ اونٹنی کو تکلیف نہ ہو۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم پر سوا اس کے دودھ کے اورکوئی چیز حلال نہیں ۔
دفعتاً ایک آواز سخت اس پتھرسے نکلی اور تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت اونٹنی برآمد ہوئی ۔ جس نے سب کے سامنے بچّہ دیا۔ اس کے ساتھ تھوڑی سی سبز گھاس بھی تھی ، جو اس نے کھائی ۔ اس کے پاس ہی ایک چشمہ بھی دکھائی دیا اور ایک چراگا ہ جہاں رہ کرگھاس چرتی اور پانی پیتی رہی ۔لوگ اسی اونٹنی کا دودھ خود پیتے تھے اوربھر بھر کر اپنے گھر لے جاتے تھے ۔ حضرت صالح نے لوگوں سے کہا کہ اس کنویں کا پانی خدا کے حکم سے ایک روز کے واسطے تمہارا ہے اور ایک روز اونٹنی کا ۔ تم لوگ باری باری پانی لو مگر جس دن دودھ نہ دوہو اس روز اس او نٹنی کو پانی پینے دو،تم اس روز پانی کا ایک قطره بھی نہ لو۔ دیکھو یہ اللہ کی نشانی ہے۔ اگر
تمھارے ہاتھوں اس کو کوئی تکلیف پہنچی توخدا کا عذاب تم پر نازل ہو گا۔ میں پھر تم کو سمجھاتا ہوں کہ تم اپنے مولا سے ڈرو اور اس کے عذاب سے محفوظ رہو۔
ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا اور خلق اللہ اس اونٹنی سے فائدہ اٹھاتی رہی ۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ چند آدمی جن کی تعداد دس تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ عنقریب ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے ، جس کی وجہ سے یہ قوم تباہ ہوجائے گی ؟ چنانچہ جب یہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام قُدار تھا۔ تو لوگوں نے اس کو نگاہ میں رکھا ۔ یہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے ساتھ ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا یا ۔ اور شراب پی کر طے کیا کہ اونٹنی کو مار ڈالیں ۔ جس وقت اونٹنی پانی پی رہی تھی ان لوگوں نے حملہ کیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر تو سچّا ہے تو اب ہم کو کوئی عذاب دکھا ۔ ہم نے تیری اونٹنی کو سزا دی ۔ اگر کوئی عذاب نہ آیا تو یاد رکھ تیری بھی تکاّ بوٹی کر دیں گے۔
حضرت صالح علیہ السلام کچھ دیر خاموش رہے اور اپنی اونٹنی پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے اونٹنی کی طرف دیکھا ۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا:
”اے قوم ثمود ،میں نے اپنی طرف سے تم کو سمجھانے اور خدا کی طرف بلانے میں کسر باقی نہ چھوڑی ۔لیکن میری بدقسمتی نے تم کو سیدھے راستے پر نہ آنے دیا۔ تونے میری ہنسی اڑائی، برا بھلاکہا اور میری ایک بات نہ سنی ۔ اب میں تم کو خبردار کرتا ہوں کہ تمہارے کہنے کے موافق میں نے خدا سے عذاب کی دعا کی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ میرا خدا میری دعا قبول کرے گا۔ تم پر اس کا عذاب نازل ہو گا۔ توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے ۔ اگر اس وقت بھی تم اپنے کئے پرپچھتاؤ گے اور سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف صاف بڑھوگے تو اُس کے عذاب سے بچے رہوگے۔ آگے تم کو اختیارہے۔“
اس کے جواب میں قوم ِثمود نے قہقہہ لگایا اور کہا صا لح علیہ السلام کیسا عذاب کس کا عذاب ،ان باتوں میں ہم آنے والے نہیں ہیں۔ اس لغویت کو اپنے پاس رکھو اور عذاب کا خوف کسی اور قوم کوسُناہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ”تم پر ایک چنگھاڑ کا عذاب نازل ہو گا ۔یعنی آتشی چنگھاڑ کہ کان کے پردے پھٹ جا ئیں گے اور تم مر جاؤ گے۔“
یہ سن کر ان بے وقوفوں نے نے اپنے کانوںمیں روئیاں ٹھونسیں اور روز خبریں رکھیں کہ کسی طرح چنگھاڑ سے محفوظ رہیں مگرجب خدا کا حکم قریب پہنچا توبھونچال یعنی زلزلہ شروع ہوا۔ اور بہت زور زور کی آوازیں نکلیں اور اس قیامت کی کہ سوائے ان لوگوں کے، جو حضرت کے ساتھ تھے باقی جس قدرتھے تباه و تاراج ہوگئے۔اس طرح قوم ِ ثمود اپنی نا فرمانی کی وجہ سے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئی ۔
حضرت صالح اس قوم کی یہ کیفیت دیکھ کرشام کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں رہنے سہنے لگے۔
(علامہ راشد الخیری)
*قُدار بن سالف بن جندع قبیلہ ثمود کا وہ شخص تھا جس نے حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کیا۔
0 comments:
Post a Comment