ملکہ بلقیس
ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے دربار میں رونق افروز تھے، انسان اورجنّات سب قسم کے حیوانات حاضرخدمت تھے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کی طرف نگاہ مبارک اٹھا کر دیکھا اور فرمایا۔ ہم میں آج ہُد ہُد نظر نہیں آتا کیا وجہ ہے؟ وه آج کیوں غیر حاضر ہےاورکیا و جہ اس کی حاضری میں مانع ہوئی، ہم کو اس بات کی سخت تشویش ہے اگر اس کی غیر حاضری گستاخی پرمبنی ہے تو آج ہم اس کو ضرور ہلاک کردیں گے۔ابھی یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلی ہی تھی کہ ہُدہُد پھدکتا ہوا دربار میں داخل ہوا اور عرض کیا اے جہاں پناه آج میں نے ایک نہایت عجیب واقعہ دیکھا ہے اجازت ہوتوعرض کروں۔ یہی واقعہ میری عدم موجودگی کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اجازت دینے پر ہُدہُد نے بیان کیا کہ آج میں سویرے اِدھر اُدھر پھرتا پھراتا ایک ملک میں سے گزرا اس ملک کا نام ”سباح“ ہے اور اس میں بجائے مرد کے ایک عورت حکمرانی کرتی ہے۔ اس کا نام ملکہ بلقیس ہے۔ ملک نہایت سرسبز ہے، رعیت کے لئے بہت اچھا انتظام ہے۔ خداوند عالم نے وہاں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی۔ ہر طرح سے لوگ خوش ہیں۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ مالک حقیقی کے آگے سرنیاز خم کریں وہ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ جہاں پناہ مجھے یہ دیکھ کر بہت رنج ہوا ۔ اس قدر ہے ادبی اتنی گستاخی نہ معلوم خدا وند عالم کی کون سی مصلحت پوشیدہ ہے۔ کہ باوجود اس گناہ کے وہاں کے لوگ نہایت آرام سے رہتے ہیں۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا اے ہُد ہُد کیا تو سچ کہتا ہے؟ ہمیں اب تک اس جگہ کا پتہ نہ تھا۔ ہم ابھی دریافت کرتے ہیں۔ہمارا یہ فرمان لے کر تم خود ملکہ کے دربار میں جاؤ۔ فرمان چُپکے سے ملکہ کے آگے ڈال کر خود ایک طرف ہٹ جاؤ ۔ پھر دیکھو کیا واقعہ ظہور میں آتا ہے۔
ہُد ہُد فرمان لے کر روانہ ہوا۔ منزل بہ منزل طے کرتا ہوا۔ ملک سباح میں پہونچا۔ فرمان ملکہ کے قریب ڈال کر خود ایک طرف ہوگیا۔ ملکہ نے فرمان دیکھ کر حکم دیا کہ اس کو پڑھا جائے۔چنانچہ فرمان پڑھا گیا اور ملکہ نے کہا اے میرے وزیر اورمشیر مجھے صلاح دو کہ میں کیا کروں؟ وزیروں مشیروں نے عرض کیا ملکہ عالم ہمارے پاس بہت سی فوج ہے اور آپ بخوبی جانتی ہیں کہ ہم بہت بہادر ہیں۔ اگر آپ حکم دیں تو ابھی کوچ کردیں اور ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ ملکہ نے کچھ دیر توقف کیا پھر سوچ کر کہا میں لڑائی کرنا پسند نہیں کرتی اس لیے کہ اس میں بہت نقصان ہوتا ہے، بہت سے بے گناہ قتل ہوتے ہیں نسلیں خراب ہوجاتی ہیں، قحط پڑجاتا ہے، میری رائے ہے کچھ تحفے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیے جائیں۔ چنانچہ ایلچی بہت بیش بہا تحفے لے کر حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے لینے سے انکار کیا اور فرمایا نہیں ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمہارا ملک معبود حقیقی کی پرستش کرے۔بعد ازاں فرمایا اس وقت ملکہ بلقیس کو میرے پاس حاضر کر سکتا ہے۔ جنّات میں سے ایک نے عرض کیا حضور میں دربار کے برخاست ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت حاضر کردوں گا۔ حضرت سلیمان یہ سن کر خاموش رہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کو اتنی دیر میں ملکہ کا آنا منظور نہیں۔ آپ کے وزیر اعظم آصف نے آپ کے بشرے کو دیکھ کر کہا”بادشاہ عالم! میں ملکہ کو اسی لمحے حاضر کرتا ہوں۔“کہتے ہیں کہ وزیر آصف نے اسم اعظم کے اثر سے ملکہ کو اس کے بیش بہا تخت سمیت ایک آنِ واحد میں حاضر کردیا۔تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس سے زبانی بات چیت کی۔ملکہ بلقیس کو پہلے ہی حضرت سلیمان کا حال معلوم ہوچکا تھا چنانچہ وہ فوراً ایمان لے آئیں کیونکہ وہ خود سچّے مذہب کی متلاشی تھیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ بلقیس کو اپنے محل خاص میں لے کر گئے اس کا تمام فرش عبور کا تھا۔بچاری ملکہ کو خبر نہ تھی اس نے سمجھا کہ پانی ہے وہ اپنے پانچے اٹھا اٹھا کر چلنے لگی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اصل حقیقت بتائی تو ملکہ بہت شرمندہ ہوئی کہ اس نےہر قسم کا سامان اور چیزیں اپنے ملک میں دیکھی تھیں لیکن اس سے ناواقف تھی۔
(نصرت جہاں۔ بہ شکریہ بنات)
0 comments:
Post a Comment