آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday, 1 May 2020

Shah Mansoor - A Badshah of Sufism

شاہ منصورؒ: دنیائے تصوف کے بادشاہ 
(8 رمضان المبارک یوم وصال کے موقع پر خصوصی مضمون)
ابن طاہر

کچھ شخصیتیں ایسی گزری ہیں جن کا خیال دل پر ایسا نقش ہے کہ برسوں کا طویل سفر بھی ان کی یادوں کو ذرہ برابر بھی دھندلا نہیں کرپایا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
دل کے آئینےمیں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
خانقاہ برہانیہ کمالیہ، دیورہ، ضلع گیا کے صاحب سجادہ حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کی ذاتِ گرامی بھی ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ آپ کو تصویر کھینچوانا سخت نا پسند تھا۔ کیمرہ دیکھتے ہی اپنے آپ کو اس طرح سمیٹ لیتے کہ کیمرہ مین آپ کے جلال سے مرعوب ہوکر آپ کی جانب دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا۔آپ عالم دین تھے اور فوٹو گرافی کو جائز نہیں سمجھتے تھے لہٰذا آپ کی تصویر شاذ و نادر ہی کسی کے پاس موجود ہے۔ آج کے علما کو شاید یہ بات عجیب لگے کیوں کہ عام طور پر یہ بات بالکل عنقا ہو چکی ہے کہ کبھی علما کے اندر اس نکتے پر بھی کوئی اعتراض تھا۔  لیکن کاغذ پر اپنی تصویر نہ اتروانے والی شخصیت نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی تصویر اس طرح ثبت کردیں کہ آپ ان کے چہرے کو بھلا نہیں سکتے۔ جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے ان کے دل و دماغ پر ان کی تصویر گہرائی تک ثبت ہے۔ کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے لیے تصویر کھنچوانے کو ناپسند کرنے والے کی تصویر خود آپ کے دلوں میں پرنٹ کردی ہے۔ میں نے بہت ساری تصویریں کھینچی ہیں ان کو دیکھنے کے لیے یا تو مجھے البم نکالنا پڑتا ہے یا اپنے کمپیوٹر کی اسٹوریج کھنگالنی پڑتی ہے لیکن آپ کی تصویر کے لیے بس شاعر کا یہی مصرع صادق ہے اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ اس نقش کی تابناکی کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس میں مزید نکھار پیدا کرے۔ اس خیال کے پیچھے جو جذبہ کار فرما ہے وہ ہے محبت، عشق۔ اپنے بزرگوں سے یہ محبت آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کی شان میں ذرا سی بھی گستاخی آپ کو قبول نہ تھی۔ عشقِ رسولؐ کا جذبہ تو آپ کی رگوں میں اس طرح سمایا تھا کہ اس کی سرشاری آپ کے رخ روشن سے جھلکتی تھی۔
حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کی شخصیت میں جو وقار تھا اس سے بڑے بڑے عالم دین مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔خدا، اس کے رسولﷺ اور پھر اپنی ذات پر اتنا بھروسہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔ فقر و استغنا کی ایسی زندہ مثال اس زمانے میں نہیں ملتی۔جس محفل میں جاتے اپنی گفتگو اور طرز تکلم سے بہت جلد لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ علمی مباحث میں اتنا ٹھہراؤ، اپنے عقیدے کی درستگی کے استدلال پر اس درجہ یقین ہوتا کے سامنے والا ایک لمحہ کو حیرت زدہ رہ جاتا۔مدلل انداز گفتگو اورمثبت دلائل سامنے والے کو لاجواب کر دیتے۔ کبھی کسی سے بلا وجہ زبردستی اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہی بڑی سادگی اور دل جمعی سے اپنے بزرگوں کے مطمعٔ نظر کو سامنے رکھا۔کبھی کبھی تو یہ بحثیں ساری رات چلتیں اور کبھی کسی کا دل میلا نہ ہوتا۔ رمضان کے دنوں میں خاص کر نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے پر جو گفتگو شروع ہوتی تو وہ سحری تک جاری رہتی۔
آپ جامعہ نعیمیہ،مرادآباد سے فارغ التحصیل تھے۔ لیکن آپ کا خانقاہی و خاندانی رنگ سب رنگوں پر غالب تھا۔ خوش پوش و خوش لباس تھے۔ فقیری میں بھی شان نرالی تھی۔ چہرے پر ایک جلال تھا لیکن مزاج اتنا ہی شفیق۔ کسی سے کبھی اونچے الفاظ میں بات نہ کرنا اور دوسروں کی خطاؤں کو یکسر نظر انداز کر دینا آپ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:

انسانی غرضیں ٹکراتی ہیں اور ان سے شکوہ و شکایت پیدا ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی ایسی حرکت کرنا جو جہنم کا سبب بن جائے نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی کچھ کہے اپنا کام  خیر کا کیے جانا چاہیے۔ بہت دفعہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہےاور دور کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو دور نہیں ہوتی۔ بلا سے نہیں ہوتی خود خیر کیے جانا چاہیے وہ کام کیا جانا چاہیےجو اللہ کی رضا کا سبب ہے۔ اسی میں دونوں جہان کا فائدہ ہے۔
منصور احمد فردوسی غفرلہ
حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ آپ کےہاتھ میں ہوتا۔ کچھ نہیں ملتا تو روزنامہ یا ہفت روزہ سے اس تشنگی کو دور کرتے۔ مطالعہ کے ساتھ آپ ادب کی ایک ایسی صنف کے ماہر تھے جو اب تقریباً ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ناپید ہوتی صنفِ حاشیہ نویسی کا شوق ایسا تھا کہ جو بھی کتاب آپ کے ہاتھ میں آتی اس کے حاشیے آپ کی تحریروں سے بھر جاتے۔ ایک ایک نکتے کو اتنا بلیغ بنا دیتے کہ کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا۔ حاشیہ نویسی کا مقصد کبھی تنقید نہ ہوتا بلکہ مصنف کی باتوں کو مزید کھول کر اور واضح کرکے بتانا ہوتا۔ آپ کے حواشی کسی بھی مضمون میں موضوعات کاانسائکلوپیڈیا تیار کردیتے۔ کتاب سے الگ ایک کتاب تیار ہوجاتی۔ وہ ساری کتابیں اور رسالے معلوم نہیں  کہاں ہیں جو آپ کی حاشیہ نویسی سے مزین ہوئے۔ اگر وہ ساری تحریریں یکجا ہوجاتیں تو یقیناً فن حاشیہ نویسی پر ایک دفتر تحریر ہو سکتا تھا۔
بزرگوں کی روش کے مطابق مکتوبات کے ذریعہ مریدین و متوسلین کی رہنمائی کی روش آپ کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ ذیل میں آپ کا ایک خط قارئین کے استفادے کے لیے پیش ہے جس میں بڑی خوبی سے ایک سماجی برائی پر روشنی ڈالی گئی ہے ساتھ ہی ورد و وظائف کی تلقین و رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسی دیوروی ؒ کا
محمد الیاس فردوسی کے نام
ایک خط  
برادر دینی ومحبت یقینی۔۔۔۔۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج کل بچّیوں کا معاملہ نازک صورت اختیار کرگیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کے طقیل میں ہم لوگوں پر رحم فرمائے۔ یہ ساری پریشانیاں ہم لوگوں کی اسلام سے ہٹ جا نے کی وجہ سے پیدا ہوگئی۔مسلم قوم دنیا طلبی میں روز بہ روز غیر مسلموں کی طرح ہوتی جارہی ہے۔ حب مال اور حب جاہ یہ دو بت بہت خطرناک ہیں۔ اللہ تعالی ان کا پجاری ہونے سے بچائے ۔ یہ حب مال ہی کی ایک شکل ہے جولڑکی والوں سے مطالبہ کی شکل میں بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اور بڑے بڑے دیندار لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آ تے ہیں۔
. میں نے جو چیز آپ کو پڑھنے کودی ہے فی الحال ان کو پڑھاجائے ۔حضرت رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے تھے کہ وظیفہ پابندی سے پڑھو اگرچہ کم ہو زیادہ وظیفہ ناغہ کر کے بہتر نہیں ۔ اسی لئے میں اپنے لوگوں کو جو مشغول ہوں زیادہ وظیفہ نہیں بتلا تا۔ خود حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی بھی عادت یہی تھی۔ اس لیے کہ اطمینان قلب کے لئے رزق حلال کا حصول ضروری ہے قرآن کریم ہمیں سکھلاتا ہے ۔ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ دنیا کی اچھائی کو آخرت کی اچھائی پر مقدم کیا ۔ اور ہم لوگوں کا یہ دل گردہ نہیں بہت زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہو کر آخرت کی اچھائی حاصل کرنے میں مشغول ره سکیں ۔ ہاں دنیا کی محبت اور اس میں دل لگا نا برا ہے۔ حصول دنیا میں بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہمیشہ پیشں نظر رہنا چاہیے۔ کمائیں اس کے حکم سے اور خرچ کریں اس کی خواہش کے مطابق۔ اگر موقع ہو تو پھر رَبِّ اغفِرلی  وَ تُب عَلَیَّ إنَّکَ أنتَ التَّوّابُ الرَّحیم کا ختم  کر ڈالیے 3125 بار روزانہ پڑھنے سے چالیس دن میں سوا لاکھ اس کا ختم پورا ہو جائے گا۔ 3125 بار 24 گھنٹے میں پورا ہو جانا چاہئے اور بیٹھ کر پڑھنا چاہیے جتنے وقت میں پورا ہو۔
میرے بھائی! آپ نے لکھا ہے کہ مخدوم الملکؒ کے یہاں کی حاضری کی خواہش اور بےچینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے متعلق میں کیا  لکھوں۔ نماز و روزه ، حج و زکوٰة، دعاء اوروظيفہ سب مناسبت قلبی پیدا کرنے کے ذریعہ ہیں۔ اصل چیز یہی مناسبت ہے جس کو عشق اور محبت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوتوسب ریا اور دکھلا وا ہے۔ حضرت شیخنا و مولانا شاہ کمال علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جو کچھ ہے سرّ معنی عشق ہے عشق
تمامی کوئے معنی عشق ہے عشق
 ایک جگہ اپنے لیے دعاء فرماتے ہیں۔
الٰہی دل کو نازک اس قدر کر
 کہ موج بوئے گُل ہو تیغ اس پر
 اپنے اضطراب کو ان الفاظ میں ظاہر فرمائے ہیں۔
مرنے کے بعد بھی نہ گیا دل کا اضطراب
 تڑپے  ہے آج تک میری خک مزار دیکھ
 اور اپنے سلسلہ کے بزرگ اپنے شیخ سے محبت یہ سب ذریعہ ہے اللہ تعالی کی محبت کے حاصل ہونے کا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وابتغوااِلیہ الوسیلة، تلاش کرو اس کی طرف وسیلہ یعنی ذریعہ، فنا فی الشیخ فنا فی الرسول فنا فی اللہ کی منزلیں ہیں۔
حضرت تراب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
تراب اسی پر رہنا تو ثابت قدم
جومرشد تراتجھ سے کہہ سن گیا
اللہ بس باقی ہوس-
فقط والسلام
منصوراحمد فردوسی
رمضان المبارک کی ساتویں شب میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ قلب کا عارضہ شدت اختیار کر گیا تھا۔تہجد کا وقت گزر چکا تھا۔ بار بار فجر کی اذان سے متعلق دریافت فرماتے۔ آخری سفر کی تیاریاں مکمل تھیں بس ایک  آخری بار اپنے رب کے حضور آخری سجدے کا انتظار تھا۔ آپ کی بیٹیاں چاروں جانب اپنے شفیق باپ کی چارپائی کی پٹّی پکڑے کھڑی تھیں۔ سب کی آنکھیں نم تھیں ۔اپنے بزرگ باپ کی تیاری ان کی جدائی کی کہانی بیان کر رہی تھی۔8 رمضان المبارک صبح انتظار ختم ہوا فجر کی اذان شروع ہوگئی اتنی شدید تکلیف کے بعد بھی آپ پوری توجہ سے اذان کی جانب متوجہ ہو گئے، لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ یقیناً اپنے رب کی حمد وثنا بیان کر رہے ہو ں گے اور اپنے رسولﷺ پر درود سلام کا نذرانہ پیش کر رہے ہوں گے ۔ آپ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے۔
اذان مکمل ہونے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ شفاعت طلب کرنے کی دعا مکمل ہوئی۔چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ہاتھ چہرے سے ڈھلک کر سینے پر آٹکا۔ 8 رمضان المبارک 1415ھ مطابق 9 فروری 1995 بروز پنجشنبہ دنیائے تصوف کی یہ باوقار شخصیت اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔

حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی ؒ


1 comment:

خوش خبری