یادیں بچپن کے رمضان کی
قافلے بھی مختلف طرح کے ہوتے۔ کچھ میں صرف گانے والے ہوتے اور کچھ موسیقی کے ساتھ۔ ان قافلوں میں ایک قافلہ وہ تھا جس کے سالار ایک ماہر بینجو نواز تھے تو دوسرا قافلہ شہر کے مشہور قوال قطب تارہ قوال کا تھا۔ یہ ٹولیاں جنہیں ہم قافلہ کہا کرتے یہ دو سے سات آٹھ افراد پر مشتمل ہوتیں۔ اپنی آواز کو دور تک پہنچانے کے لیے ان سب کے پاس مائک ہوتا۔ اور لوگوں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ چلتا۔ ایک عجیب سی رونق ہوتی۔ نماز، روزہ اور تراویح کے ساتھ یہ روپ رمضان کی رونقوں کو دوبالا کردیتا۔ اب یہ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں رسم ممنوعہ قرار دے کر معاشرے سے چھین لی گئی ہیں۔ لوگ ان ثقافتی خوشیوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ گھروں میں موبائل اور ٹی وی پر فلمیں اور مولاناؤں کی بے جا بحثوں پر کوئی فتویٰ نہیں آتا لیکن اگر آپ نے کسی تہوار میں خوشیوں کا نیا رنگ گھولنا چاہا تو اسے بلا تاخیر بدعت قرار دے دیا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ تقریب مذہبی فریضہ نہیں بلکہ مقامی تہذیب ثقافت کا عکس ہوتی ہیں۔ جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس اسلامی تہوار کے تئیں بھرپور عقیدت ہوتی ہے۔
بہر حال میں ذکر کر رہا تھا اپنے شہر میں سحری کے لیے جگانے والے قافلوں کا جو میرے شہر کی ایک نمایاں خصوصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ سحری سے ڈیڑھ گھنٹے قبل یہ قافلے اپنے اپنے علاقوں سے نکل جاتے۔ محلوں کی مختلف سڑکوں سے گھومتے ہوئے شہر کی چھوٹی مسجد کے سامنے سارے قافلے اکٹھا ہوجاتے۔ ان قافلوں کے شاعر بھی خوب سے خوب فکری جولانیاں دکھاتے۔ رمضان کے لیے ان کی محبت و عقیدت کا اظہار صاف جھلکتا۔ ہر قافلہ کا شاعر الگ ہوتا یا کبھی ایک ہی شاعر کا کلام دو تین قافلہ سالار گاتے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ سب کا کلام الگ ہوتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو قافلے سڑک پر آمنے سامنے آجاتے پھر دونوں میں وہ مقابلہ آرائی ہوتی کہ مزا آجاتا۔ ترنم،گلوکاری اور شعری معیار کا وہ بھرپور مظاہرہ ہوتا کہ آخر میں لوگوں کو دونوں کے درمیان برابری پر صلح کرانی پڑتی تبھی دونوں قافلے اپنی اپنی راہ لیتے۔ جمعتہ الوداع کے بعد فضا ذرا غمگین ہو جاتی۔ رمضان کے الوداعی کلام پڑھے جانے لگتے۔ زیادہ تر طرزیں فلموں کے درد بھرے نغموں پر مبنی ہوتیں۔ لوگوں کو یہ احساس ہوجاتا کہ اب ایک برکت بھرا مہینہ اُن سے رخصت ہونے والا ہے۔چاند رات میں چاند نکلتے ہی ان قافلے والوں کا رنگ ایک بار پھر تبدیل ہوجاتا۔ مغرب بعد سے ہی جشن و طرب کے نغمے گائے جانے لگتے۔ سادہ لوح ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ایک دوسرے کا پورا خیال رکھنے والے میرے شہر کے معصوم لوگ سر میں ٹوپی چپکائے چاند رات کی خریداری میں مصروف ہوجاتے۔ خوشی و عید کی آمد کا جوش ہر چہرے سے صاف جھلکتا۔ آخری لمحوں کی خریداری میں عطر، سرمہ، رومال، نئی ٹوپی، بنیان خریدنے والوں کی بھیڑ زیادہ ہوتی۔ قافلے میں جشن و طرب کے نغمے گانے کا یہ سلسلہ فجر کی نماز کے بعد تک چلتا۔ اور پھر لوگ عید کی نماز کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے۔محلے میں نماز کا وقت ہونے تک ایک سناٹا ہوجاتا لوگ اپنے اپنے گھروں میں عید کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے۔ نماز کا وقت قریب آتے ہی مسجدیں بھر جاتیں۔نماز ہوتی خطبہ ہوتا اور پھر لوگوں کا ایک دوسرے سے گلے ملنے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ شاید مسجد میں موجود ہر شخص مسجد میں موجود ہردوسرے شخص سے گلے ضرور ملتا۔ آج جب بڑے شہروں میں لاکھوں لوگوں سے بھری مسجد میں خود سے گلے ملنے والے دو چار رشتہ داروں کے علاوہ ہم کسی کو نہیں پاتے تو ایک عجیب سی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔بڑے اور چھوٹے شہروں کا یہ فرق آج کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔
بات ہورہی تھی سحری کے لیے جگانے والے قافلوں کی تو یہ سلسلہ رمضان تک ہی محدود نہیں رہتا۔ عید کے تیسرے یا چوتھے دن ایک بڑے قافلہ کمپٹیشن کا اعلان ہوتا جس میں آس پاس کے کئی شہروں کے قافلے حصّہ لیتے۔ ہر ایک قافلہ سالار اپنے ترنم اور کلام کے معیار کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا اور پھر جیتنے والوں کو بڑی بڑی شیلڈوں اور مختلف انعامات و اکرامات سے نوازا جاتا۔ یہ قافلہ سالار بڑے ہی باصلاحیت ہوتے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ اکثر مقابلہ بڑا دلچسپ ہوتا۔ اب یہ سب باتیں محض تذکرہ بن گئی ہیں۔ مولویوں نے ہر تہوار میں صرف تقریروں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کو تقریروں کے بل بوتے پر کنارے لگا دیا گیا ہے اور لوگ ایک مشینی زندگی کے عادی ہوگئے ہیں جہاں وہ ان سرگرمیوں کو چھوڑ کر فلمیں دیکھنے اور فلمی نغمے سن کر اپنا دل بہلانے کے لیے مجبور ہیں۔ بڑے بڑے ”بھونپو“ لگے ہوئے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔
الوداع! اے ماہ رمضاں الوداع!
عید کی صبح فجر کی اذان ہو چکی ہے نمازی مسجد جا رہے ہیں اور فضا میں عید کا نغمہ بکھر رہا ہے:
بھوجپوری زبان میں سحری کی ایک نظم
بہر حال میں ذکر کر رہا تھا اپنے شہر میں سحری کے لیے جگانے والے قافلوں کا جو میرے شہر کی ایک نمایاں خصوصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ سحری سے ڈیڑھ گھنٹے قبل یہ قافلے اپنے اپنے علاقوں سے نکل جاتے۔ محلوں کی مختلف سڑکوں سے گھومتے ہوئے شہر کی چھوٹی مسجد کے سامنے سارے قافلے اکٹھا ہوجاتے۔ ان قافلوں کے شاعر بھی خوب سے خوب فکری جولانیاں دکھاتے۔ رمضان کے لیے ان کی محبت و عقیدت کا اظہار صاف جھلکتا۔ ہر قافلہ کا شاعر الگ ہوتا یا کبھی ایک ہی شاعر کا کلام دو تین قافلہ سالار گاتے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ سب کا کلام الگ ہوتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو قافلے سڑک پر آمنے سامنے آجاتے پھر دونوں میں وہ مقابلہ آرائی ہوتی کہ مزا آجاتا۔ ترنم،گلوکاری اور شعری معیار کا وہ بھرپور مظاہرہ ہوتا کہ آخر میں لوگوں کو دونوں کے درمیان برابری پر صلح کرانی پڑتی تبھی دونوں قافلے اپنی اپنی راہ لیتے۔ جمعتہ الوداع کے بعد فضا ذرا غمگین ہو جاتی۔ رمضان کے الوداعی کلام پڑھے جانے لگتے۔ زیادہ تر طرزیں فلموں کے درد بھرے نغموں پر مبنی ہوتیں۔ لوگوں کو یہ احساس ہوجاتا کہ اب ایک برکت بھرا مہینہ اُن سے رخصت ہونے والا ہے۔چاند رات میں چاند نکلتے ہی ان قافلے والوں کا رنگ ایک بار پھر تبدیل ہوجاتا۔ مغرب بعد سے ہی جشن و طرب کے نغمے گائے جانے لگتے۔ سادہ لوح ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ایک دوسرے کا پورا خیال رکھنے والے میرے شہر کے معصوم لوگ سر میں ٹوپی چپکائے چاند رات کی خریداری میں مصروف ہوجاتے۔ خوشی و عید کی آمد کا جوش ہر چہرے سے صاف جھلکتا۔ آخری لمحوں کی خریداری میں عطر، سرمہ، رومال، نئی ٹوپی، بنیان خریدنے والوں کی بھیڑ زیادہ ہوتی۔ قافلے میں جشن و طرب کے نغمے گانے کا یہ سلسلہ فجر کی نماز کے بعد تک چلتا۔ اور پھر لوگ عید کی نماز کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے۔محلے میں نماز کا وقت ہونے تک ایک سناٹا ہوجاتا لوگ اپنے اپنے گھروں میں عید کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے۔ نماز کا وقت قریب آتے ہی مسجدیں بھر جاتیں۔نماز ہوتی خطبہ ہوتا اور پھر لوگوں کا ایک دوسرے سے گلے ملنے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ شاید مسجد میں موجود ہر شخص مسجد میں موجود ہردوسرے شخص سے گلے ضرور ملتا۔ آج جب بڑے شہروں میں لاکھوں لوگوں سے بھری مسجد میں خود سے گلے ملنے والے دو چار رشتہ داروں کے علاوہ ہم کسی کو نہیں پاتے تو ایک عجیب سی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔بڑے اور چھوٹے شہروں کا یہ فرق آج کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔
بات ہورہی تھی سحری کے لیے جگانے والے قافلوں کی تو یہ سلسلہ رمضان تک ہی محدود نہیں رہتا۔ عید کے تیسرے یا چوتھے دن ایک بڑے قافلہ کمپٹیشن کا اعلان ہوتا جس میں آس پاس کے کئی شہروں کے قافلے حصّہ لیتے۔ ہر ایک قافلہ سالار اپنے ترنم اور کلام کے معیار کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا اور پھر جیتنے والوں کو بڑی بڑی شیلڈوں اور مختلف انعامات و اکرامات سے نوازا جاتا۔ یہ قافلہ سالار بڑے ہی باصلاحیت ہوتے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ اکثر مقابلہ بڑا دلچسپ ہوتا۔ اب یہ سب باتیں محض تذکرہ بن گئی ہیں۔ مولویوں نے ہر تہوار میں صرف تقریروں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کو تقریروں کے بل بوتے پر کنارے لگا دیا گیا ہے اور لوگ ایک مشینی زندگی کے عادی ہوگئے ہیں جہاں وہ ان سرگرمیوں کو چھوڑ کر فلمیں دیکھنے اور فلمی نغمے سن کر اپنا دل بہلانے کے لیے مجبور ہیں۔ بڑے بڑے ”بھونپو“ لگے ہوئے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔
الوداع! اے ماہ رمضاں الوداع!
عید کی صبح فجر کی اذان ہو چکی ہے نمازی مسجد جا رہے ہیں اور فضا میں عید کا نغمہ بکھر رہا ہے:
عید جشن وفا ہے چلے آئیے
عید جلوہ نما ہے چلے آئیے
آپ سبھوں کو عید مبارک!بھوجپوری زبان میں سحری کی ایک نظم
واہ۔۔کیابات ھے۔۔۔۔بھت خوبصورتی سے بیان کیاہے۔۔۔بچپن کی یادیں تازہ ھو گئیں
ReplyDeleteمثنیٰ حسن
ماشااللہ؍بھوت خوب بیان کیا ہے ۔محتشم عثمانی
ReplyDelete