ضعیف الاعتقادی
پنڈت رتن ناتھ سرشار
(یہ مضمون پنڈت رتن ناتھ سرشار کی کتاب ”فسانۂ آزاد“ سے لیا گیا ہے، یہ کتاب دراصل ایک مسلسل افسانہ ہے جو اخبار اودھ میں قسط وار شائع ہوا تھا جس کو بعد میں کتاب کی صورت میں شائخ کیا۔ اس کی کئی جلدیں ہیں۔ اس مضمون میں سرشار نے ثوہم پرستی اور کمزور اعتقادی کی تردید کی ہے۔ یہ مضمون اس زمانے کی لکھنؤ کی ٹکسالی زبان میں لکھا گیا ہے جس میں محاوروں،تلمیحات و تشبیہات و استعارات کی بھرمارہے۔)میاں آزاد کو ایک دن نماز پڑھنے کا شوق ہوا۔ سوچے کہ آج جمعہ ہے۔ چنانچہ مسجد کی طرف نکلے۔ راہ میں دو آدمی بھوت پریت اور جن و شیطان کے متعلق گفتگو کرتے جارہے تھے۔ ان میں ایک موٹا اور دوسرا د بلا پتلا تھا۔ موٹا بھوت پریت کا قائل نہ تھا اور دبلاجن پری پر ایمان لایا ہوا تھا۔ دونوں میں تکرار ہورہی تھی۔موٹے نے کہا : ”اگر جن پری کی کچھ حقیقت ہے تو مجھے ثابت کر دکھاؤ" چنانچہ دونوں نے ایک گاؤں کو جانا طے کیا۔ جہاں ایک عامل بھوت پریت کا عمل کرتاہے۔
میاں آزاد یہ سُن کر ان کے ساتھ ہو لئے اور نماز پڑھنا بھول گئے۔ ٹانگے میں سوار ہو کر گاؤں میں جا پہنچے۔ عامل کے مکان پر ایک میلے کی سی بھیڑ تھی۔ اس بھیڑ میں انھوں نے اس موٹے کو ڈھونڈ نکالا۔ اوراس سے کہا کہ میں بھی بھوت پریت کا قائل نہیں۔ آج اس مکّار عامل کی قلعی کھولتا چاہئے۔ دونوں مل گئے۔ اتنے میں عامل با ہر آیا اور للکار کر کہا کہ کوئی آکرمجھ سے زور آزمانا چاہے تو آئے۔ ایک سدها ہو آدمی آگے بڑھا اور کشتی ہوئی۔ وہ شخص ایک ہی مار میں چاروں خانے چت ہوگیا اور بیہوش بنا پڑ گیا، عامل نے پھرللکارا کہ کوئی اور ہے ؟ یہ سُن کر میاں آزاد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ لنگو ٹ کس کر میدان میں کوو پڑے ۔ عامل یہ دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ آخر میاں آزاد نے ایک ہی مار میں اسے پچھاڑ دیا. عامل کی ساری شیخی جاتی رہی اور سارا مجمع غُل مچانے لگا۔ عامل کو اُسی روزگاؤں چھوڑنا پڑا۔
وہاں سے میاں آزاد اور موٹا آدمی دونوں ہاتھ میں ہاتھ ملائے واپس لوٹے۔ راستہ بھر ہی عامل کی باتیں اور بھوت پریت کے قصّے ہوتے رہے۔ آزاد نے اپنا ایک اور قصّہ سنایا کہ ایک صاحب غیب دان تھے لوگ ان کے بہت معتقد تھے۔ ایک روز آزاد نے پوچھا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ اس نے کہازرد پھول ہے۔ آزاد نے کہا اگر نہ ہوتو؟ یہ سُن کر غیب دان کا چہرہ زرد پڑ گیا ، پھر کہا سبزپھول ہے۔ آزارنے کہا آج تک ہرے رنگ کا پھول کہیں دیکھا نہ سُنا۔ غیب دان پریشان ہوگیا، مجلس میں ایک قہقہہ پڑا اور اس کے حواس غائب ہو گئے۔
میاں آزاد سیدھے اسٹیشن پہونچے۔ یہاں ایک رئیس اپنے مصاحبوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے ۔ میاں آزاد کی انگریزی وضع دیکھ کر رئیس کے مصاحب آزاد پر پھبتیاں کسنے لگے۔ آزاد تو تھے ہی آزاد ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے ۔ مصاحب عاجز آ گئے، نواب نے ان کی حاضر جوابی کو پسند کیا اور آزاد کو بھی اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیا مصاحبوں نے ازراہِ حسد نواب سے کہاحضور کا ان کو مصاحب رکھنا مناسب نہیں معلوم نہیں یہ کون ذات شریف ہیں؟۔
0 comments:
Post a Comment