بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دعا فریب بہت
ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔
کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اسے
مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد
میں ایک بہت دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین
دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر ایک عرب
سے خریدا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار
ہو کر جارہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک
جنگل میں جا نکلا ۔ ابھی یہ اپنی دھن میں آگے جاہی رہا تھا کہ
پیچھے سے چھے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار
تو خالی دیے لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا نہیں ہے
کہ ان سے بچ کرنکل چلوں ۔ اس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا ، لیکن
ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا۔ سارا
جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے
گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے
گھوڑے پیچھے رہ گئے ۔ گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اسے گھر لے
آیا۔
اس روز گھوڑے نے اتنا زور لگایا کہ اس کی ٹانگیں بے کار ہو گئیں ۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی
رہیں ۔ لیکن دکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا۔ چناں
چہ اس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اس کو روز صبح
وشام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔
لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔ وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ
کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر
اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور
طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل
دیا۔
اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر ۔ ان
میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادت کرتے اور
خدا کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ ایک بہت اونچا مکان تھا
اس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا
لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس گھر
کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم
کرتا یا کسی کا مال دبالیتا یا کسی کا حق مار لیتا تو وہ اس گھر
میں جاتا، رسی پکڑ کر کھینچتا۔ یہ گھنٹا اس زور سے بچتا کہ سارے
شہر کو خبر ہو جاتی ۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے ، نیک دل
ہندومسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے ۔
اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اس گھر کے دروازے
پر جا پہنچا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں ، گھوڑا سیدھا گھر
میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی تھی۔ یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ
چلاتا تھا، رسی جو اس کے بدن سے لگی تو وہ اسی کو چبانے لگا۔ رسی
جو ذرا کھنچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔
پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور
اپنی اپنی عبادت ختم کر کے اس گھر میں آن کر جمع ہو گئے ۔ شہر کے
پنچ بھی آگئے ۔ پنچوں نے پوچھا : ” یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘
لوگوں نے بتایا: ’’ یہ فلاں تا جر کا ہے۔ اس گھوڑے نے تاجر کی جان
بچائی تھی ۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر
کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا ۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اس کی
زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے
اس کی آنکھیں جھکی تھیں ۔ پنچوں نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا ۔ اس
گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی
ہو، یہ جانور ہے آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا
نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان
سمجھا جا تا ہے۔
تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔
بڑھ کر اس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔
قواعد:
گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا۔
بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے۔
معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔
اوپر دیے گئے جملوں میں جن کاموں کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پہلے ہو چکے ہیں یعنی یہ گزرے ہوئے وقت
کی باتیں ہیں ۔ گزرے ہوئے وقت / زمانہ کو ماضی کہتے ہیں
0 comments:
Post a Comment