جلوے ہیں میکدے کے، انداز عارفانہ
شبلی فردوسی
ہے بھیڑ عاشقوں کی ، انداز عاشقانہ
مجلس ہے یہ ادب کی اور جشنِ صوفیانہ
ہیں دیپ سارے روشن افکارِ صوفیاء کے
جلوے ہیں میکدے کے ، انداز عارفانہ
محفل ہے معرفت کی اور راہ مُعتقد کی
ہیں جامِ اسماع پیہم ، تحسینِ ساقیانہ
باتیں ہیں ساری دل کی اور تیرے دردِ دل کی
کیسے نہ کِھنچ کے آوے کوئی یہاں دِوانہ
اِلہام و القاء ہر سمت ، انوار کی تپش ہے
نغمہ سِرا کی دُھن میں ہے بیعتِ عافیانہ
ہے جُستجو محبت اور خانقاہ کی خدمت
ہم ایسے نااہل کا نعرہ ہے فاتحانہ
شعلوں میں عشق کے ہم دن رات جل رہے ہیں
غُنچہ و باغ و بُلبل اور ذوقِ عاشقانہ
ہیں کشف کے مسافر سارے ہی ایک صف میں
غافل نہیں ہے جن سے یہ گردشِ زمانہ
ہو راہِ حق کا طالب تو سر کے بل کو آوے
بن وعظ و ذکر پاوے وہ ڈھنگِ زاہدانہ
شبلی بھی ایک راہی قسمت سے اُن کے در کا
وہ جن کی خاکِ پا ہے لاکھوں کا آستانہ
0 comments:
Post a Comment