سویرے اٹھنا
محمد حسین آزاد
|
Painting by Isra |
سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
خوشی کا تھا وقت اور ٹھنڈی هوا
پرندوں کا تھا ہر طرف چہچہا
یهی جی میں آئی که گھر سے نکل
ٹہلتا #ٹہلتا #ذرا#باغ #چل
چھڑی ہاتھ میں لے کے گھر سے چلا
اور اک باغ کا سید ها رسته لیا
وہاں اور ہی جا کے دیکھی بهار
درختوں کی ہے ہر طرف اک قطار
کہیں ہے چنبیلی کہیں موتیا
گلاب اور گیندا کہیں ہے کھِلا
کھلے پھول ہیں اس قدر جا بجا
که خوشبو سے ہے باغ مهکا ہوا
کہیں آم ہیں اور کہیں ہیں انار
کہیں کھٹے میٹھے ہیں دیتے بہار
لگے پھل درختوں میں ہیں اس قدر
کہ شاخیں زمین سے لگیں آن کر
بیان کیجئے کیا ہری گھاس کا
بچھونا ہے مخمل کا گویا بچھا
بہ جي چاہتا ہے کہ اس فرش پر
پھریں لوٹتے ہم ادهر اور ادهر
پہ سبزی ہے اک لطف دکھلا رہی
طراوت ہے آنکھوں میں کیا آرہی
خدا نے ہماری خوشی کے لئے
یہ سامان سارے ہیں پیدا کئے
سویرے ہی اٹھے گا جو آدمی
رہے گا وہ دن بھر ہنسی اور خوشی
نہ آئے گی سستی کبھی نام کو
کرے گا خوشی سے ہر اک کام کو
رہے گا وہ بیماریوں سے بچا
یہ ہے سو دواؤں سے بہتر دوا
*بعد کے ایڈیشنوں میں یہ مصرع يوں ہے
یہ سبزی تر و تازگی لا رہی۔
|
0 comments:
Post a Comment