الف لیلہ کے ہیرو
(بادشاہ شہریار اور ملکہ شہرزاد کی داستان عشق)
(بادشاہ، شہرزاد اور دنیا زاد ایک کمرے میں)
اگلے وقتوں کی بات ہے۔ ملک پارس میں ایک بادشاہ تھا شہریار۔ایک بار ملکہ سے ایسا خفا ہوا کہ اسے قتل ہی کرا کے چھوڑ ا۔ کچھ ایسی ہی بات تھی کہ اُس دِن سے اُس کے دل سے عورت ذات کا اعتبار اٹھ گیا۔ اب وہ روز نئی شادی کرتا اور صبح ہوتے ہی نئی بیوی کو قتل کرا دیتا۔ یہی دستور رہا۔ سینکڑوں لڑکیاں موت کے گھاٹ اتر گئیں۔ جو بچیں اُن کے ماں باپ اُنھیں لے کرجلا وطن ہونے لگے۔ملک بھر میں ایک شور مچ گیا۔
بادشاہ کے وزیر کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی کا نام تھا شہرزاد اور چھوٹی کا دنیازاد۔شہرزاد بہت خوبصورت اور سمجھدار لڑکی تھی ایک دن اپنے باپ سے کہنے لگی” ابّا جان ایک بات ہے آپ مانیں تو کہوں “وزیر بولا”کہو بی بی ،ضرور کہو آخر ایسی کیا بات ہے،جو تم اس طرح منہ بنائے ہو!“شہرزاد بولی” نہیں ابّا جانی آپ وعدہ کریں تو عرض کروں!“ وزیر سوچنے لگا آخر ایسی کیا بات ہو گی، بولا ”اچھا کہو، ہم نے تمہاری بات مانی!“شہرزاد کہنے لگی” ابّا جان آپ میری شادی بادشاہ سلامت سے کرا دیجئے ، آپ کا بڑا ہی احسان ہوگا۔“” اف،یہ کیا؟“وزیر نے کہا” بیٹی! یہ کیا غضب کیا تم نے، خیر تو ہے، تم کچھ دیوانی تو نہیں ہوئی ہو؟ نہیں بی بی میں جان بوجھ کر تمھیں بادشاہ سلامت کی بھینٹ تو نہیں چڑھا سکتا۔ “ یہ کہہ وزیر بڑے سوچ میں پڑ گیا۔ لیکن شہرزاد نے ایسی ضد کی کہ وزیر مجبور ہو گیا۔ بادشاہ کے حضور میں عرض کی۔ بادشاہ بھی یہ پیام سن کر دنگ رہ گیا۔ بولا” تم اس دھو کے میں مت رہنا کہ تمہاری خاطر سے میں اپنے معمول کو چھوڑدوں گا “وزیر نے عرض کی” اعلیٰ حضرت میں تو کچھ عرض نہیں کر سکتا غلام زادی کی ضد اور اسی کی درخواست ہے۔ “
آخر شہرزاد کی بادشاہ شہریار سے شادی طے پا گئی رخصتی کے وقت شہرزاد اپنی چھوٹی بہن دنیازاد کو الگ لے گئی اسے سمجھایا بجھایا اور جتایا، پھر باپ کے ساتھ شاہی محل کو چلی۔ نکاح کے بعد باپ سینے پر پتھر رکھ بیٹی خدا کو سونپ گھر واپس آیا۔
بادشاہ شہریار نئی دلہن کے کمرے میں داخل ہوا۔ دلہن بیگم کی صورت شکل بہت ہی بھا ئی۔شہرزاد سچ مچ بہت خوبصورت تھی۔ لیکن بادشاہ نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ہیں، بس رونے ہی کو تو ہے۔ بادشاہ نے پوچھا تو بولی ”میری ایک چھوٹی بہن ہے۔ اسے میں بہت چاہتی ہوں اور ہم دونوں کبھی جدا نہیں ہوئیں ، وہ بھی مجھ پر جان دیتی ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو رات کی رات وہ بھی اسی کمرے میں گزارے ۔ اور صبح ہم ایک دوسرے کہ آخری دیدار کر سکے ۔“ خدا کا کرنا ،بادشاہ نے خوشی سے یہ بات مان لی اور اسی دم دنیازاد بھی شاہی محل پہنچ گئی اور اسی کمرے میں اُس کے آرام کرنے کا انتظام کیا گیا۔
تھوڑی رات گئے دنیازاد نے بہن کو پکارا اور کچھ رونے سی لگی، پھر بولی” باجی بیگم! میں تمہارے غم میں بےچین ہوں ۔ بن بن کے لیٹی لیکن پلک سے پلک نہ لگی۔ نیند نہ آنی تھی نہ آئی ،تمھیں تو اچھی کہانیاں یاد ہیں اچھی باجی کوئی کہانی سناؤ تاکہ میری بھی رات کٹے ۔
شہرزاد نے بادشاہ سے اجازت چاہی۔ بادشاہ نے کہا” ہاں ہاں ضرور ہم بھی سنیں گے ضرور۔ کوئی کہانی سناؤ ۔“ اب شہرزاد نے ’سوداگر اور جن‘کی کہانی سنا نی جو شروع کی تو صبح ہو گئی اور کہانی پوری نہ ہوئی۔ کہانی کہتے کہتے ملکہ شہرزاد ایک دم چپ ہو گئی، بادشاہ بولا”کیوں کیوں،چپ کیوں ہو گئیں۔ “
شہرزاد نے عرض کی” جہاں پناہ ! ملا حظہ ہو،پوپھٹ چلی ہے، مشہور ہے دن میں کئی کہانی سنائی جائے تو مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔“بادشاہ کو کہانی بہت پسند آئی،بولا”اچھا تو باقی کل رات کو!“ شہرزاد آداب بجا لائی؛ اپنی کامیابی پر دل ہی دل میں خوش تھی۔ اُدھر چھوٹی بہن دنیازاد کے دل میں بھی لڈو پھوٹ رہے تھے کے باجی بیگم نے ،ایسا لگتا ہے بازی جیت لی ملکہ شہرزاد اسی طرح کوئی نہ کوئی کہانی سنانی شروع کرتی اور اس کا سلسلہ کئی کئی رات تک چلا کرتا ، یہاں تک کہ اُس کی سنائی ہوئی کہانیوں کا سلسلہ ایک ہزار اور ایک رات تک چلا اس زمانے میں شہرزاد نے بادشاہ کو اپنا کر کے ہی چھوڑا ۔بادشاہ کے دل میں یہ بات بٹھادی کہ سب عورتیں ایک سی نہیں ہوتیں، بری بری ہیں اور اچھی اچھی۔ بادشاہ نے بھی اپنے پچھلے دستور کو چھوڑ دیا ۔ اب بادشاہ اور بادشاہ بیگم یعنی شہریار اور شہرزاد دونوں ہنسی خوشی رہا کرتے۔ دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے اور ایک دوسرے سے سچّی محبت کرتے۔
(بشکریہ غنچہ)
0 comments:
Post a Comment