لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل
شوکت علی فہمی
ایک لڑکا تھا ۔خوب کھاتا تھا اور بہت اچھے اچھے کپڑے پہنتا تھا ۔کپڑے کو دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ خدا جانے کتنا پڑھا لکھا ہوگا۔ ایک دن وہ بازار جارہا تھا ۔کوٹ پتلون پہنے ہوئے سر پر ہیٹ، ہاتھ میں ایک قیمتی بیگ ، پاؤں میں ایک ولایتی انگریزی جوتا، عینک لگی ہوئی، چال میں غرور ،نگاہوں میں شيخي اور اسی چال کے ساتھ وہ چلا جا رہا تھا کہ ایک بزرگ شخص نے جس کے ہاتھ میں ایک خط تھا اسے روکا:
”میاں صاحبزادے! ذرا ٹھہرنا، میاں آپ کا نام کیا ہے؟“
”مجھے محمد فاضل کہتے ہیں۔“
اچھا !تو میاں محمد فاضل صاحب ذرا میرا یہ خط پڑھ دیجئے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ اب تو میاں محمد فاضل صاحب بہت گھبرائے ۔خط ہاتھ میں لے لیا اور یونہی خواہ مخوا ہ دیکھنے لگے۔ آخر اسے اپنی بد قسمتی پر رونا آگیا اور وہ سوچنے لگا کہ ان کپڑوں پر سب کو میرے پڑھے لکھےہونے کا یقین ہوجاتا ہے اور میں ایک حروف بھی نہیں پڑھ سکتا ۔خط پر اس کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں کہ آنکھوں سے ندامت کے آنسوں نکل آئے ۔بڈ ھا سمجھا کہ شاید کسی کے مرنے کے خبر لکھی ہوئی ہے کے پڑھنے والا رو رہا ہے تو وہ بھی رونے لگا۔
فیشن ایبل لڑکے نے پوچھا کہ ”بڑے میاں آپ کیوں روتے ہیں؟“
بڑے میاں نے کہا ”بیٹا تمہیں روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگا کے شاید خط میں کوئی ایسی ویسی بات لکھی ہو۔“
لڑکے نے کہا ”میں تو صرف اس لئے رو رہا ہوں کے خط پڑھنا ہی نہیں آتا۔“
،بڑے میاں نے اس کے ہاتھ سے خط چھین لیا اور کہا” واہ میاں واہ ،پہلے سے کیوں نہ کہہ دیا میرا اتنا وقت بھی کھویا اور مفت میں رُلایا بھی ۔کپڑے ایسے بھڑک دار نام محمد فاضل اور لکھے پڑھےکچھ بھی نہیں ۔شرم کرو شرم کرو ۔محمد فاضل کو شرم سے پسینہ آگیا اور وہ آنکھیں نیچے کیے ہوئےچلا گیا۔
0 comments:
Post a Comment