راحت اندوری
بھول جانا بھی اسے سہل نہیں
یاد رکھنا بھی ہنر ہے اس کو
مشہور شاعر اور شہنشاہ مشاعرہ حضرت راحت اندوری کا 11 اگست2020 کو کورونا جیسی مہلک بیماری سے انتقال ہوگیا۔اس طرح ایک آزاد منش شاعر ملک کی آزادی کی 73 ویں سالگرہ منانے سے چار دن پہلے ہی اس دنیائے فانی سے آزاد ہوگیا۔ایک للکار تھی جو ماند پڑگئی۔ قوم کا ایک دردمند دل تھا جو گہری نیند سوگیا۔راحت مشاعروں کی جان تھے ان کے بغیر دنیا بھر میں مشاعرے کی محفل سونی محسوس کی جاتی تھی۔ آج اُس پار مشاعرہ کی محفل سجی ہوگی ساغر، خمار خوش ہوں گے کہ آج اُن کا دلدار آگیا۔ اِدھر منور کا دل اداس ہوگا کہ اُن کی دنیا تاریک ہوگئی۔ بشیر بدر کی آنکھیں دیکھ رہی ہوں گی کہ چاند چھپ گیا۔ندا فاضلی کی لوریاں راحت کو تھپکیاں دے کر سُلا رہی ہوں گی کہ ان کی نیم خوابی کو قرار آجائے۔ تاریک آسمان میں قوم کا مستقبل تلاش کرتی آنکھیں۔ نیم باز آنکھوں سے جگنو کی تلاش۔ ایک انقلابی آواز تھی جو خاموش ہوگئی، شاید نہیں،یہ آواز تو فضائے محیط میں اسی طرح گونجتی رہے گی ۔ سوشل میڈیا میں راحت کی ہی حکومت ہوگی۔ یقیناً مشاعروں میں آنکھیں برسوں انہیں تلاش کریں گی اور مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ انہیں۔
یہ! حادثہ! تو!کسی دن !گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والا تھا
***
ابھی ماحول مرجانے کا نئیں
***
(اوپر: آئینہ کی آرٹ ڈائریکٹر نے راحت اندوری کو خراج پیش کرتے ہوئے ان کا ایک پورٹریٹ بنایا ہے جو قارئین کے لیے پیش ہے۔)
راحت اندوری کو خراج عقیدت کے طور پرپیش ہے پروفیسر ظفر احمد نظامی کا تحریر کردہ خاکہ
چہرہ کتابی، آنکھیں نیم خوابی، ستواں ناک ، زبان بے باک، بڑے بڑے کان، بلندی کا نشان، تا بحد نظر پیشانی،ذہانت کی کہانی۔ یہ ہیں شاعر طرحدار، ممتاز فنکار ، مشاعروں کی شان، محفلوں کی جان، پردۂ سیمیں کا وقار، مقبول نغمہ نگار، نا واقف کمزوری و شہزوری یعنی ڈاکٹر راحت اندوری۔
راحت یکم جنوری 1950 کو اندور میں پیدا ہوئے۔شب وماه پُر شیدا ہوئے ۔ ابتدائی اسباق گھر میں پڑھے پھر اعلیٰ تعلیم کی سیڑھیاں چڑھے۔ ارد و میں ایم اے پاس کیا۔ خود کو پی ایچ ڈی سے روشن ناز کیا۔ درس و تدریس کو پیشہ بنایا۔ آئی کے کالج میں پڑھایامصوری کے ناز اٹھائے، رنگ ریزی کے دیپ جلائے۔
انہیں ابتدا ہی سے شاعری کا شوق رہا۔شعر و ادب کا ذوق رہا۔ ہزارہا شعر ازبر تھے۔مستقبل کا مظہر تھے۔انہوں نے اختر شیرانی کو دل میں بٹھایا۔ ساحر کو اپنایا۔مجاز سے پیار کیا۔مخدوم پر اعتبار کیا۔فیض سے فیضیاب ہوئے۔کوچۂ سخن میں کامیاب ہوئے۔ آخر کار تحقیق کا کرب سہا۔1968 میں پہلا شعر کہا۔پھر مسلسل شعر کہنے لگے۔
دریائے سخن میں بہنے لگے۔ اگرچہ وہ شعر کہتے تھے، تنہا ہی اس کا بوجھ سہتے تھے۔ پھر نشستوں میں شرکت کرنے لگے ، اندورکے ماحول میں ابھرنے لگے۔لوگ انہیں پہچاننے لگے۔ شاعر کی حیثیت سے جاننے لگے۔ محفلوں میں موجود پائےگئے ، مشاعروں میں بلائےگئے ۔شہرتوں سے قریب ہو گئے ، اردو والوں کے حبیب ہو گئے۔ انہوں نے ترقی پسندی کی چادر تانی، گلی کو چوں کی خاک چھانی۔ اب نامور گیت کار ہیں ، پردۂ سیمیں کے نغمہ نگار ہیں۔ راہ میں کہیں نہیں رکےہیں۔ بے شمار فلموں میں گیت لکھ چکے ہیں ۔ انہوں نے ادب کا بلند اقبال کیا، دنیا کے سخن کو مالا مال کیا۔ ”دھوپ دھوپ“ سفر میں رہے۔”میرے بعد“ اپنی نظر میں رہے۔پانچویں درویش کا قصہ سنایا۔ شاعری کو نیا تاج پہنایا۔ لیلائے غزل کا حسن نکھارا۔ ہندی کے قالب میں اتارا۔ ان کے نزدیک شاعری آہستہ خرام ہے۔ نازک احساس کا نام ہے۔خوشبو خوشبو ہے۔سرچڑھتا جادو ہے۔ وہ بارِ سخن اٹھاتے ہیں۔ اسے پیشہ بناکر اپناتے ہیں ۔خود نئے گیت بنتے ہیں۔ پرانی دھنوں پر سر دھنتے ہیں۔ وہ ناقدوں کے ناقد ہیں۔ ناقدین کرام کی ضد ہیں۔ ”آب حیات“ سے دل فگار ہیں۔ تنقید نگاروں کے تنقید نگار ہیں۔زندگی کو فن سے عاری سمجھتے ہیں۔ آج کی تنقید کو دوکانداری سمجھتے ہیں۔اگرچہ یہ کار بے ارادہ ہے۔ ادب ان کے نزدیک زوال آمادہ ہے۔ وہ شاعر ہند نازک خیالاں ہیں۔ گروہ بندیوں سے نالاں ہیں۔اگرچہ صورت حال خوابناک ہے۔تاہم اردو کا مستقبل تابناک ہے۔اردو والے ہی اسے بچا سکتے ہیں۔ہمالیہ سے اونچا اٹھا سکتے ہیں۔اردو کو کوئی اجاڑ نہیں سکتا۔اسے جڑ سے اکھاڑ نہیں سکتا۔یہ مثل امر بیل رہی ہے۔ دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔اردو کی خدمت اکادمیوں کا کام ہے جو اب برائے نام ہے۔وہ مشاعرے کی افادیت کے قائل ہیں۔اسے لیے اُن کی جانب مائل ہیں۔ اُسے اردو کی امانت سمجھتے ہیں۔تشہیر کی ضمانت سمجھتے ہیں۔اس نے اردو کو زندہ رکھا ہے۔زبان و ادب کو تابندہ رکھا ہے۔ انہوں نے اسے تحقیق کا موضوع بنایا۔ اس کی معنویت پر قلم اٹھایا۔بیشتر ملکوں کا سفر کرچکے ہیں۔غیروں کے دلوں میں گھر کرچکے ہیں۔ سامعین کے قدر دان ہیں۔ جن کے دلوں میں شعر جوان ہیں۔کتابوں کے چھپنے کو معیار نہیں سمجھتے۔عزت و عظمت کا مینار نہیں سمجھتے۔وہ اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔اپنے بارے میں خود ہی کہتے ہیں۔
میری غزل سے بنا ذہن میں کوئی تصویر
سبب نہ پوچھ میرے دیو داس ہونے کا
***
راحت اندوری کے متفرق اشعار
عشق کے کاروبار میں ہم نے
جان دے کر بڑی کمائی کی
***
ٹوٹ کر ہم ملے ہیں پہلی بار
یہ شروعات ہے جدائی کی
***
میں نے دنیا سے مجھ سے دنیا نے
سیکڑوں! بار !بے وفائی! کی
***
میرے مرنے کی خبر ہے اس کو
جانے کس بات کا ڈر ہے اس کو
***
جنازے پر میرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جارہا ہے
***
بھول جانا بھی اسے سہل نہیں
یاد رکھنا بھی ہنر ہے اس کو
***
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم !سے کم! راہ کے !پتھر تو ہٹاتے! جاتے
***
صرف اتنا فاصلہ ہے زندگی سے موت کا
شاخ سے توڑے گئے گل دان میں رکھے رہے
***
طوفاں تو اس شہر میں اکثر آتا ہے
دیکھیں اب کے کس کا نمبر آتا ہے
***
سر رکھ کہ میرے زانو پر سوئی ہے زندگی
ایسے میں آئی بھی تو قضا کیسے آئے گی
***
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
***
ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
***
دوگز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا
***
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لیں میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
***
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا
***
میں جانتا ہوں دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
***
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتّے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
***
یہ بوڑھی قبر تجھے کچھ نہیں بتائے گی
مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوں میں
***
0 comments:
Post a Comment